2016کے بعد تقرر کئے گئے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کے اساتذہ و غیر تدریسی عملہ کی تفصیل کلکتہ ہائی کورٹ نے طلب کی ہے

کلکتہ، جنوری ۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے ریاست کے سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری اسکولوں میں گزشتہ چھ سالوں میں بھرتی کیے گئے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تعداد کی تفصیل طلب کیا ہے۔جمعرات کو جسٹس بسواجیت بوس نے ریاستی حکومت سےتفصیل طلب کی ہے اس کے علاوہ جج نے کہا کہ 2 فروری تک رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔ یعنی ریاست کے پاس دو ہفتے ہیں۔جمعرات کو عدالت کے اس حکم کے نتیجے میں تقریباً23,500اسکولوں میں نوکری اساتذہ زدمیں ہیں ۔گزشتہ 6سالوں میں یعنی 2016 سے سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح پر اسکولوں میں بھرتی کے لیے صرف ایک امتحان لیا گیا ہے۔ تاہم تقریباً 23,500اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کو کئی راؤنڈز میں بھرتی کیا گیا ہے۔ ان میں، کلاس IX-X کے اساتذہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے -11,425اس کے علاوہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے 5500 اساتذہ، 4487 گروپ ڈی سٹاف اور 2037 گروپ سی سٹاف تعینات کیا گیا ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ضلع کے اسکول انسپکٹر اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا تقرری کا خط ملنے کے بعد یہ تمام نوکریاں مناسب طریقہ سے انجام دی گئی ہیں یا نہیں۔سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کو پہلے ہی ہائی کورٹ نے ریاست میں اساتذہ کی بھرتی میں بدعنوانی کے مختلف الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی ہے۔ تاہم ہائی کورٹ نے ان تقرریوں کی تصدیق کی ذمہ داری ضلعی اسکول انسپکٹرز کو دی ہے۔ جسٹس باسو کے مطابق، ضلع اسکول انسپکٹر بھرتی میں بے ضابطگیوں یا دھوکہ دہی کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔جج نے یہ حکم جمعرات کو ایک کیس کی سماعت کے دوران دیا۔ یہ معاملہ مرشد آباد ضلع کے ایک اسکول میں بھرتی دھوکہ دہی کا ہے۔ مقدمہ ا سکول کے ہیڈ ماسٹر اور ان کے بیٹے کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔ شکایت تھی کہ باپ ہیڈ ماسٹر نے اپنے بیٹے کو اس سکول ٹیچر کی بھرتی کے کاغذات میں جعلسازی کر کےدیا اور تقرری کی گئی۔اس نے تین سال تک تنخواہ وصول کی۔لیکن ڈسٹرکٹ ا سکول انسپکٹر کے پاس ان کی تقرری کی کوئی دستاویز نہیں ہے۔ واقعہ جاننے کے بعد حیران جج نے سوال کیاکہ تقرری لیٹر میں نام نہ ہونے کے باوجود اس ٹیچر کو اتنے عرصے تک تنخواہ کیسے ملی۔اس کے بعد جج نے سوال کیا کہ اس کا مطلب ہے اس میں کئی اور فراڈ ہوگیا ہے۔جسٹس باسو نے بعد میں 2016 سے ریاست کے تمام سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری سطح کے اسکولوں میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی بھرتی کی تصدیق کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈسٹرکٹا سکول انسپکٹرز کو ذمہ داری دی گئی ہے۔

Related Articles