فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی میں تمام طقبات کو شامل اور نفرت کے خاتمے کیلئے اب ہمیں متحد ہوکرمیدان عمل میں آنا ہوگا۔ مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی، نومبر۔ فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی میں تمام طقبات کو شامل کرنے اور نفرت کے خاتمے کیلئے متحد ہوکرمیدان عمل میں آنے کی اپیل کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور نو منتخب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ فرقہ پرستی کے خلاف جنگ میں ہم تنہا کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہمیں نہ صرف ان طبقے کو بلکہ سماج کے تمام ہم خیال افراد کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار کانپور میں منعقد ہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ستائیسویں اجلاس میں بورڈ کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعدکیا اور انہوں نے اپنے خطا ب میں سب سے پہلے بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں مختلف عوارض اور عمر کے تقاضے کی وجہ سے اب زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرپاتا لیکن آپ کے حکم کی تعمیل میں مجھے جو ذمہ داری دی گئی ہے اس کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کروں گا۔ مولانا مدنی نے ملک کے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ موجودہ بورڈ کے اجلا س میں ملک میں بڑھتی ہوئی خطرناک فرقہ پرستی کے تعلق سے جو باتیں سامنے آئی ہیں اور جس پر گفتگو ہورہی ہے ان باتوں کو لیکر حکومت کا جو نظریہ اور رویہ ہے اور جس طرح ان چیزوں کو پورے ملک میں پیش کیا جارہا ہے وہ نفرت اور تعصب پر مبنی ہے، احکام شرعیہ میں مداخلت درحقیقت اسی نفرت وتعصب کی سیاست پر مبنی ہے۔انہوں نے کہاکہ ان چیزوں کو روکنے کے لئے ہمارے پاس بظاہر کوئی طاقت نہیں ہے اور جولوگ ایسا کررہے ہیں ان کے پاس اقتدار کی طاقت ہے جسے آج کی دنیا میں سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے مایوس کن حالات میں بھی امید اور یقین کے چراغ روشن ہیں،ملک کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو ملک کی موجودہ روش کو غلط سمجھتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کے خلاف پچھلے کچھ برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے اسے وہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس طرح کی چیزیں ملک کے لئے انتہائی خطرناک اور نقصاندہ ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ فرقہ پرستی کے خلاف جنگ میں ہم تنہا کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہمیں نہ صرف اس طبقے کو بلکہ سماج کے تمام ہم خیال افراد کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔ منافرت اور فرقہ پرستی کی اس آگ کو بجھانے کے لئے ہمیں مل جل کر آگے آنا ہوگا اگر ہم ایسا کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ فرقہ پرست طاقتو ں کو سکشت نہ دے سکیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ فرقہ پرستی اور منافرت کا یہ کھیل جنوب کے مقابلے میں شمالی ہندوستان میں اپنے شباب پر ہے،اس کی بنیادی وجہ سیاسی مفاد ہے۔اشتعال انگیزیوں اور اوٹ پٹانگ بیانات سے سماجی سطح پر فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی سازش ہورہی ہے تا کہ اکثریت کو اقلیت سے بالکل الگ تھلگ کر کے اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیابی حاصل کرلی جائے۔ اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اکثریت کے ان تمام لوگوں کو اپنے ساتھ لانا ہوگا جو ان باتوں کو غلط سمجھتے ہیں اور جن کا ماننا یہ ہے کہ اس طرح کی سیاست ملک کے اتحاد، سا لمیت اور ترقی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ منافرت اور فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے مٹھی بھر لوگ ہی ہیں لیکن وہ طاقتور اس لئے ہیں کہ انہیں اقتدار میں موجود لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لئے قانون کے ہاتھ بھی ان کے گریبان تک نہیں پہنچ پاتے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ نفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں کیا جاسکتا ہے، آگ سے آگ کو بجھانے کی کوشش نادان لوگ ہی کرسکتے ہیں، اس کے مقابلے میں ہمیں اخوت، ہمدردی اور اتحاد ومحبت کو فروغ دینا ہوگا جو ہماری اور اس ملک کی پرانی تاریخ بھی رہی ہے۔ اس تاریخ کو دوبارہ زندہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بلا شبہ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ملک کے اندر ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس نفرت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے،ایسے لوگو ں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو ڈر اور خوف کے اس ماحول میں بھی فرقہ پرستی اور منافرت کے خلاف مضبوطی سے لڑ رہے ہیں۔ یاد رکھیں جس دن ہم فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف تمام طبقات کو متحد کرنے اور اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوگئے،یہ طاقتیں اسی روز دم توڑ دیں گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس کے لئے ہمیں ایک مظبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور میدان عمل میں آنا ہوگا، ورنہ کل تک بہت دیر ہوسکتی ہے۔ برادران وطن کو خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے کو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، بشرطیکہ وہ اس نفرت کے خلاف ہوں انہیں ساتھ لیکراس نفرت کے خلاف مہم چلانی چاہیے تب جاکر ان مسائل کا حل ہوگا ورنہ تمام طبقات کو متحد کئے بغیر فرقہ پرستی کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اخیر میں مولانامدنی نے دعوی کیاکہ”اس وقت ہندوستان کے حالات جس قدر تشویشناک ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد یکے بعد دیگرے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ ہندوستان فسطائیت کی گرفت میں چلا گیا ہے۔ فرقہ پرست اور انتشار پسندقوتوں کا بول بالا ہوگیا ہے، جس نے ہر ایک محبِ وطن کو فکرمند کر دیا ہے“۔