ویکسین لگوانے کے باوجود کورونا انفیکشن: ویکسین بے اثر ہے؟
نیویارک ،اکتوبر۔کچھ لوگوں کو کورونا ویکسین لگوانے کے بعد بھی کورونا وائرس کے حملے کا ہدف بن کر بیمار ہونا پڑا۔ اس سے کیا یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ ان افراد پر کورونا ویکسین نے کوئی اثر نہیں کیا اور وہ بے اثر ہو گئی ہے؟کسی بھی انسان کو ویکسین کی مکمل خوراک یعنی دو ٹیکے لگوانے کے بعد بھی کورونا انفیکشن ہو جائے تو اس کو بریک تھرو انفیکشن‘ کی کیٹیگری میں رکھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں مختلف خبریں، بیانات اور رپورٹس سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ہیں اور یہ سب عام لوگوں میں خوف و ہراس کا سبب بن رہا ہے۔ بریک تھرو انفیکشن سے مراد یہ لی جا رہی ہے کہ ویکسین بے اثر ہے۔ کیا ایسی خبریں غلط ہیں یا ان میں کتنی صداقت ہے۔
بھارتی شہریوں کے لیے ویکیسن کی ایک ارب خوراکیں لیکن سوالات برقرار
بریک تھرو انفیکشن:امریکا میں عمومی صحت کے نگران ادارے سی ڈی سی کی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی جسم میں کووڈ انیس کی ویکسین کے اثر پذیر ہونے کی اوسط شرح پچاسی سے نوے فیصد کے درمیان ہے۔ یہ شرح ویکسین لگانے کے فوری بعد کی ہے۔گزشتہ مہینوں کے دوران دنیا میں انتہائی تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ویریئنٹ ڈیلٹا کے حوالے سے بھی ایک امریکی ریسرچ میں بتایا گیا کہ ویکسین مکمل لگی ہو تو اس ویریئنٹ کے خلاف مدافعت چھیاسی فیصد تک ہوتی ہے۔ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک کی دستیاب ویکسین ایک سو فیصد مؤثر نہیں ہیں اور اْن میں بھی مدافعت کی سطح سو فیصد نہیں، جنہیں ویکسین لگی ہوئی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ چھیاسی فیصد افراد میں ویکسین مؤثر ہے اور جو چودہ فیصد ویکسین لگوانے والے افراد ہیں ان میں انفیکشن پیدا ہونے کا رسک موجود رہتا ہے۔امریکی ادارے کی ریسرچ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ویکسین لگے افراد میں کورونا وائرس کے حملے کے خلاف مدافعت آٹھ مرتبہ زیادہ ہوتی ہے اور ان کے مرنے کا چانس بھی پچیس مرتبہ کم ہوتا ہے۔اس تناظر میں معالجین کا کہنا ہے کہ ایک فیکٹر وقت کا ہے اور اس وقت دنیا میں ویکسین کے حامل افراد کو ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ہے اور حتمی طور پر کہا نہیں جا سکتا کہ انسانی بدن میں ویکسین کتنی دیر تک مؤثر رہے گی۔ جرمن سوسائٹی برائے امیونولوجی کی صدر کرسٹین فالک کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد انسانی جسم میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی چھ سے نو ماہ میں ہونا ممکن ہے۔
جرمنی کی صورت حال:جرمنی میں فی الحال ویکسین سے تحفظ دیکھا جا سکتا ہے اور مسلسل انفیکشن کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ بظاہر اب کورونا وائرس سے بیمار ہونے والے سنگین مریضوں کی تعداد کم ہو چکی ہے۔چودہ اکتوبر تک متعدی امراض کے نگران جرمن قومی ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اسی ہزار ایک سو اکیاسی کووڈ انیس میں مبتلا افراد میں بریک تھرو انفیکشن کے حامل افراد کی شرح صفر اعشاریہ چھ فیصد تھی اور ان بریک تھرو انفیکشن کے حامل افراد میں مرنے کی شرح محض ایک فیصد رہی۔اگر تقابل کیا جائے تو یہ حیران کن ہے کہ کورونا انفیکشن کی پہلی لہر کے دوران جرمنی میں ہلاکتوں کی شرح محض چھ اعشاریہ دو فیصد تھی اور اس وقت ابھی کورونا ویکسین کی تیاری کا عمل لیبارٹریوں سے باہر نہیں آیا تھا۔رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق بریک تھرو انفیکشن سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چھ سو چھ ہے اور ان میں چوہتر فیصد کی عمریں اسی برس یا اس سے زائد تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی عمر کے افراد اس وقت بھی رسک گروپ میں ہیں خواہ ان میں ویکسین کے مؤثر ہونے کی شرح بلند ہی کیوں نہ ہو۔
بریک تھرو انفیکشن کے مریض بڑھ رہے ہیں:اس بات کا جواب ہاں میں دیا جا سکتا ہے۔ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق چار سے دس اکتوبر کے دوران بریک تھرو انفیکشن کے مریضوں کی تعداد بارہ ہزار پانچ سو بیس رہی جب کہ اس سے قبل کے ہفتے میں ایسے مریضوں کی تعداد دس ہزار آٹھ سو چوبیس تھی۔اس کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اٹھارہ سے انسٹھ برس کے افراد میں بریک تھرو انفیکشن کی ممکنہ شرح آٹھ اعشاریہ دو فیصد تک ہے۔ اس گروپ کے ویکسین لگے مریضوں کے بیمار ہونے کی ابتدائی شرح دو اعشارہ چھ فیصد تک رہی لیکن تین اکتوبر سے پہلے کے چار ہفتوں میں یہ شرح بلند ہو کر دس اعشاریہ ایک فیصد ہو گئی تھی۔اسی طرح ساٹھ برس یا اس سے زائد عمر کے افراد میں بھی بریک تھرو انفیکشن کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس گروپ کے افراد کی شرح تو پچپن فیصد سے زائد رہی لیکن ویکسین لگانے کے سلسلے کے بعد شدید علیل یا انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں صرف سات فیصد مریض لائے گئے لیکن دس اکتوبر سے پہلے کے چار ہفتوں میں یہ شرح اٹھائیس فیصد سے زائد ہو گئی ہے۔