اسرائیلی شہر حیفہ میں برطانوی راج کے لیے لڑنے والے ہندوستانی فوجیوں کی بہادری کے قصے کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟
حیفہ /دہلی،اکتوبر۔پہلی جنگ عظیم میں اپنی جان گنوانے والے برطانوی راج کے لیے لڑنے والے ہندوستانی فوجیوں کو شمالی اسرائیل کے ساحلی شہر حیفہ میں جمعرات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران اس شہر پر سلطنت عثمانیہ، جرمنی اور آسٹریا کی مشترکہ افواج کا قبضہ تھا۔برطانوی راج کے لیے لڑنے والے ہندوستانی فوجیوں نے اس شہر کو متحدہ فوج کے قبضے سے آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس جنگ کو جیتنا ضروری تھا کیونکہ اتحادیوں کی فوجوں کے لیے سامان کی ترسیل کا سمندری راستہ یہاں سے گزرتا تھا۔برطانوی حکومت کے لیے لڑتے ہوئے 44 ہندوستانی فوجی مارے گئے تھے جسے تاریخ میں گھڑسواروں کی آخری بڑی لڑائی کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اسرائیل کا شہر حیفہ ہر سال 23 ستمبر کو ان فوجیوں کی یاد میں یوم حیفہ مناتا ہے اور تین ہندوستانی کیولری ریجمنٹ میسور، حیدرآباد اور جودھ پور لانسرز کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جو 15 ویں امپیریل سروس کیولری بریگیڈ کا حصہ تھے۔اسرائیل میں موجود سینئر صحافی ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ اس دن کے جشن کا آغاز اسرائیل میں 2003 سے کیا گیا تھا۔ لیکن اس سال 23 ستمبر کو ملک میں کئی تہوار تھے جس کی وجہ سے طے شدہ تاریخ کو جشن نہیں ہو سکا اور اسے ملتوی کر دیا گیا اور جشن کے لیے 7 اکتوبر کی تاریخ طے کی گئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیل میں انڈیا کے سفیر سنجیو سنگھلا نے حیفہ میں ہندوستانی فوجیوں کے قبرستان میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کے اس حملے کو ایک ایسی کارروائی قرار دیا، جو مشین اور ٹیکنالوجی کے سہارے جنگ لڑنے کے دور میں شاید گھڑ سواروں کے لیے اپنی نوعیت کی آخری جنگ تھی۔خبروں کے مطابق ایک مقامی مورخ ایگل گریور نے بتایا کہ انڈیا کے گھڑسوار ریجمنٹ کے پاس اس جنگ میں تلواریں اور نیزے تھے اور انھوں نے اپنی روایتی بہادری سے اپنے دشمنوں کو ماؤنٹ کارمل کی پتھریلی ڈھلوانوں سے مار بھگایا تھا۔صحافی ہریندر مشرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا یہ جنگ ایسی تھی جس میں ہندوستانی فوجیوں نے ایک ایسی فوج کا مقابلہ کیا جس کے پاس گولہ بارود اور مشین گنیں تھیں۔ بھارتی فوجیوں نے گھوڑوں پر سوار تلواروں اور نیزوں سے دلیری سے مقابلہ کیا تھا۔ انھوں نے مورخ ایگل گریور کا مزید حوالہ دیتے ہوئے کہا چڑھائی کی وجہ سے وہاں جانا ناممکن تھا پھر بھی ہندوستانی فوجیوں نے چڑھائی کی اور سمجھا جا رہا تھا کہ زیادہ تر فوجی مارے جائیں گے لیکن اس لڑائی میں صرف چھ بھارتی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے اور ہندوستانی فوجیوں نے بالآخر حیفہ پر قبضہ کر لیا۔میجر دلپت سنگھ کی جرت اور بہادری کے قصے سے اسرائیل اور خاص طور پر حیفہ کے لوگ دنگ رہ گئے اور اس دن حیفہ کے ہیرو سے اظہار تشکر کرتے ہیں۔ہریندر مشرا بتاتے ہیں کہ دلپت سنگھ کے والد شاہی خاندان کے معزز گھڑ سوار تھے اور اس وجہ سے دلپت سنگھ بھی گھڑ سواری میں ماہر ہو گئے۔حیفہ سکول میں تیسری سے پانچویں کلاس میں پڑھنے والے بچوں کو تاریخ کی کتابوں میں حیفہ کی آزادی کی کہانی اور اس میں ہندوستانی فوجیوں کی شراکت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ہریندر مشرا بتاتے ہیں کتابوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ دلپت حیفہ کے ہیرو ہیں کیونکہ انھوں نے ناممکن کو ممکن بنایا۔ اس لڑائی میں ہندوستانی فوجیوں نے جنگ جیت لی تھی لیکن دلپت سنگھ آخری حملے سے پہلے ہلاک ہو گئے اور ان کے بعد کیپٹن امن سنگھ بہادر کو ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔دلپت سنگھ کو بعد میں فوجی اعزاز ملٹری کراس سے نوازا گیا تھا۔ساتھ ہی کیپٹن امن سنگھ بہادر اور دفدار زور سنگھ کو اس جنگ میں اپنی بہادری دکھانے پر انڈین آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ کیپٹن انوپ سنگھ اور سیکنڈ لیفٹیننٹ ساگت سنگھ کو ملٹری کراس سے نوازا گیا۔دارالحکومت دہلی میں واقع تین مورتی چوک کا نام بدل کر تین مورتی حیفہ چوک کر دیا گیا۔اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی انڈیا میں اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ انھوں نے میموریل بک میں دستخط اور پیغامات بھی لکھے تھے۔ہریندر مشرا بتاتے ہیں کہ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں ہندوستانی فوجیوں کے لیے احترام بھی بڑھ گیا ہے اور ایسی تفصیلات بھی سامنے آرہی ہیں کہ حیفہ میموریل سوسائٹی اب یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ ہندوستانی فوجیوں نے عالمی جنگ میں کیا کیا راستے اختیار کیے تھے۔ اس پر مطالعہ کرنے کے لیے بات چیت بھی ہو رہی ہے۔