آسام میں چلنے والے مدارس کا سروے
گوہاٹی، جنوری ۔ آسام حکومت نے ریاست میں چلنے والے چھوٹے مدارس کو بڑے مدارس کے ساتھ ضم کرنے کے مقصد سے سروے کا کام شروع کر دیا ہے۔پولیس ڈائریکٹر جنرل بھاسکر جیوتی مہانتا نے کہا کہ خطرات کو کم کرنے کے لیے چھوٹے مدارس، جو مبینہ طور پر بنیاد پرستی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، کو بڑے مدارس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔مسٹر مہنت نے کہا کہ تین کلومیٹر کے دائرے میں صرف ایک مدرسہ ہوگا اور 50 یا اس سے کم طلبہ والے مدارس کو قریبی بڑے مدارس کے ساتھ ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ریاست میں ایسے تمام مدارس کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے لیے سروے کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آسام میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور ریاست بنیاد پرستوں کا فطری ہدف رہی ہے اور اس طرح کی سرگرمیاں عام طور پر چھوٹے مدارس میں کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاستی پولیس نے دہشت گرد تنظیموں انصاراللہ ٹیم (اے بی ٹی) اور القاعدہ برصغیر ہند میں (اے کیو آئی ایس) کے نو ماڈیولز کا پردہ فاش کیا ہے اور گزشتہ سال 53 مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ان تنظیموں پر پابندی لگنے اور ان کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کو پڑوسی ملک کی عدالت کی طرف سے پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد انہوں نے اتر پردیش میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے اور اس کا مقصد نوجوانوں کو بنیاد پرست بنا کر انہیں اپنے جال میں پھنسانا ہے۔مسٹر مہنت نے کہا کہ مسلم رہنماؤں نے ان سرگرمیوں کو روکنے کے لیے حکام سے رابطہ کیا تھا اور اس کمیونٹی کے 68 رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ میں مدارس میں تعلیمی اصلاحات لانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عربی پڑھانے کے علاوہ نظر ثانی شدہ نصاب میں مہارت کی نشوونما پر خصوصی زور دیا جائے گا اور جدید تعلیمی رجحانات کو اپنایا جائے گا۔ ریاست میں اسلامی علوم کے چار اسٹریمز نافذ ہیں اور ایک بورڈ تشکیل دیا جائے گا جس میں ہر اسٹریم کے ممبران ہوں گے۔