ترکی نے وائس آف امریکہ کی نشریات پر پابندی عائد کردی

انقرہ ،جولائی۔ترکی میں میڈیا ریگولیٹری ادارے نے وائس آف امیریکہ کی ترکی کی نشریات پر پابندی عائد کردی ہے۔ جمعرات کے روز یہی پابندی جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی نشریات پر بھی عائد کی گئی ہے۔ ترک ادارے کا کہنا ہے کہ ان دو بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے نشریات کے لیے ضروری قرار دیے گئے لائسنس کے لیے درخواست نہیں دی تھی۔اس اقدام پر اپنے ردِ عمل کے اظہار میں یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا یا یو ایس اے جی ایم کی قائم مقام سی ای او کیلو چاؤ نے کہا ہے کہ وائس آف امیریکہ اور ڈوئچے ویلے پر یہ پابندی عائد کرکے ترک ادارے آر ٹی یو کے(ریڈیو اینڈ ٹیلی ویڑن سپریم کونسل) نے انٹر نیٹ پر پابندی کی راہ ہموار کرنے کا خطرہ مول لیا ہے۔کیلو چاؤ نے مزید کہا،” ترک سامعین اور ناظرین کو دنیا بھر میں حقیقت پر مبنی خبروں تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ آزادئِ صحافت پر اس تازہ ترین حملے کے باوجود یو ایس اے جی ایم کو ترکی اور دنیا بھر میں عام لوگوں تک معلومات کی آزادانہ رسائی کی حمایت کے اس کے مشن سے نہیں روکا جا سکتا۔”وائس آف امریکہ کی قائم مقام ڈائریکٹر یو لنڈا لوپیز نے اس اقدام کو ناموافق، اور پریس کوریج پر سنسر شپ عائد کرنے کی نیم خفیہ کوشش قرار دیا ہے۔لوپیز نے مزید کہا،” یہ جان کر کہ ہماری ویب سائیٹ کو بلاک کر دیا گیا ہے، ہمیں ترکی کی جانب سے وائس آف امریکہ کی درست اور غیر جانبدار خبریں، ترکی زبان بولنے والے سامعین و ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت پر پابندی کی کوششوں میں تازہ ترین اقدام پر سخت اعتراض ہے۔ گریز کے حربوں اور دیگر ذرائع سے وائس آف امریکہ کو روکا نہیں جا سکے گا۔ اس سال فروری میں آر ٹی یو کے نے وائس آف امریکہ کی ترک سروس سمیت تین بین الاقوامی نشریاتی ادروں کو یہ نوٹس جاری کیا تھا کہ وہ اپنی نشریات کے لیے لائسنس حاصل کریں ورنہ ان کا مواد بلاک کر دیا جائے گا۔ یہ نوٹس جرمنی کے ڈوئچے ویلے کوبھی دیا گیاتھا۔جمعرات کو اپوزیشن کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اور لائسنس کے مطالبے کے کھلے ناقد الہان تاسکی نے جو آر ٹی یو کے بورڈ کے رکن بھی ہیں، ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ عدالت کے حکم پر ڈوئچے ویلے اور وائس آف امریکہ کی ترک سروس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔انہوں نے طنزاً کہا،” یہ رہی آپ کی آزادئِ صحافت اور جدید جمہوریت۔”فروری میں لائسنس کے بارے میں کیے گئے فیصلے کی بنیاد اگست 2019 میں مؤثر ہونے والا ضابطہ تھا۔ تب بھی میڈیا کی آزادی کے متعدد علمبرداروں نے سنسرشپ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا کیونکہ اس ضابطے کے تحت آرٹی یو کے ،کو آن لائن موجود تمام مواد کو کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔آرٹی یو کے، کے نائب سربراہ ابراہیم اوسلو نے یہ کہہ کر اس نکتہ چینی کو مسترد کر دیا کہ اس فیصلے کا سنسر شپ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تیکنیکی اقدامات کا حصہ ہے۔اس ضابطے کے تحت آرٹی یو کے، کو اختیار ہے کہ وہ جرمانے کر سکتا ہے، تین ماہ تک نشریات معطل کر سکتا ہے یا نشریات کے ایسے لائسنس منسوخ کر سکتا ہے جو آرٹی یو کے، کے اصولوں کی پابندی نہ کر تے ہوں۔وائس آف امریکہ کی ترک سروس کی نشریات بلاک کرنے کا یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب حال ہی میں نیٹو اجلاس کے موقعے پر صدر جو بائیڈن اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان میڈرڈ میں ملاقات ہوئی ہے۔فروری میں ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لیمبورگ نے کہا تھا کہ ان کا ادارہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا۔

 

Related Articles