2023 تک زندگی میں آسانی نہیں ہوگی
لوگوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، گورنر بنک آف انگلینڈ
لندن ،فروری. بنک آف انگلینڈ کے گورنر نے کہا ہے کہ 2023 تک زندگی میں آسانی نہیں ہوگی۔ بڑھتے ہوئے مصارف زندگی اور زندگی کے معیار پر دبائو میں اگلے برس تک کوئی کمی نہیں آئے گی۔ گورنر اینڈریو بیلی نے کہا کہ برطانیہ میں بہت سے افراد کو آئندہ مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کی یہ باتیں جمعرات کو بنک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے بعد سامنے آئی ہیں۔ شرح سود میں اضافہ 0.25ے بڑھاکر 0.5فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے اجرت کے مقابلے میں پرائسز اور مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ اپریل سے لاکھوں ہائوس ہولڈز کو انرجی کے بلز میں 693 پونڈ سالانہ اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔ گیس اور الیکٹرسٹی کی پرائسز میں اضافے کی وجہ سے پوری معیشت میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بنک کیاندازے کے مطابق بعد از ٹیکس آمدن اس سال 2 فیصد گر جائے گی، یہ اندازہ بڑھتے ہوئے مصارف زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے لگایا گیا ہے اور یہ 1990میں ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے معیار زندگی میں سب سے بڑی گراوٹ کی نمائندگی کرتا ہے۔ بنک کے سروے کے مطابق فی الحال مزدوروں کی تنخواہ میں اوسطاً 5 فیصد سے کم اضافہ ہو رہا ہے۔ اینڈریو بیلی نے متنبہ کیا کہ آئندہ سال لوگ قیمتوں میں اضافے کے اثرات کو محسوس کریں گے۔ انہیں ایک مشکل دور کا سامنا کرنا پڑے گا، میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کیونکہ ہم پہلے ہی یہ دیکھ رہے ہیں اور ہم آئندہ برس آمدن میں کمی کو بھی دیکھیں گے۔ انہوں نیکہا کہ ہم اس مشکل صورت حال سے 2023 میں باہر آنا شروع ہو جائیں گے اور اب سے دو سال بعد ہم توقع کرتے ہیں کہ افراط زر کی شرح زیادہ مستحکم ہو جائے گی۔ افراط زر کی وجہ سے پرائسز میں اضافہ ہوتا ہے اور اپریل میں افراط زر 7.2 فیصد کی بلند شرح پر پہنچ جائے گا اور 2022 میں اوسطاً 6 فیصد کے قریب رہے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہ 1991 کے بعد سے پرائسز میں تیز ترین اضافہ ہوگا جو کہ بنک کے 2 فیصد کے ٹارگٹ سے خاصا زیادہ ہے۔ بنک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈیو بیلی نے کہا کہ یہ ایکسٹرنل پرائسز میں اضافے کی دنیا ہے، جس میں لوگوں کی آمدن حقیقت میں کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انرجی پرائسز بنک آف انگلینڈ کے کنٹرول سے باہرہے لیکن اس نے چیزوں کو بدتر ہونے سے روکنے کیلئے اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ معمول کی صورت حال نہیں ہے۔ پرائسز میں اضافے میں کچھ فورسز ہیں، جن میں خاص طور پر انرجی پرائسز شامل ہے، ہم ان پرائسز کو براہ راست تبدیل نہیں کر سکتے ہیں۔ گورنر بنک آف انگلینڈ نے کہا کہ یہ یقین کرنے کیلئے اچھی وجوہ موجود ہیں کہ انرجی پرائسز میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ کم از کم اس وجہ سے کہ وہ کسی حد تک سیزنل نہیں ہیں تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ ورکرز کو بڑھتے ہوئے مصارف زندگی اور پرائسز میں اضافے سے نمٹنے کیلئے تنخواہوں میں بڑے اضافے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ پرائسز میں کنٹرول سے زیادہ اضافہ نہیں ہوتا۔ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا بنک آف انگلینڈ واضح طور پر ورکرز سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ نہ کرنے کا کہہ رہا ہے تو اینڈریو بیلی نے جواب دیا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ورکرز کیلئے اسے قبول کرنا کافی تکلیف دہ ہوگا کہ ان اجرتوں کے مقابلے میں پرائسز میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوگا۔ بنک کے گورنر نے مزید کہا کہ مہنگائی کو روکنے کیلئے اجرتوں میں کچھ اعتدال لانے کی ضرورت ہے۔ گورنر اینڈریو بیلی کو یکم مارچ 2020 سے سال میں بشمول پنشن 575538 پونڈ کی ادائیگی کی گئی جو کہ فل ٹائم ملازمین کی سالانہ اوسط تنخواہ 31285 پونڈ سے 18 گنا زیادہ ہے۔ کورونا وائرس کوویڈ 19 پینڈامک اوربریگزٹ دونوں برطانیہ میں ورک فورس کی قلت کیبڑیاسباب ہیں اور ملک اس وقت جاب ویکنسیز ریکارڈ بلند ترین سطح پر ہے۔ مسٹر اینڈریو بیلی نے مزدوروں کی قلت کے بارے میں کہا کہ بنک یقین کرتا ہے کہ ملک میں لیبر فورس کے سائز میں کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مائیگریشن سے بھی کچھ تعلق ہو سکتا ہے تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اتنی بڑی کمی میں کس حد تک کورونا وائرس پینڈامک نے اثر ڈالا اور کتنا بریگزٹ نے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی وقت میں ہوئی ہیں۔ گورنر نیکہا کہ دونوں چیزوں کے ایک ہی وقت پر ہونے کی وجہ سے یقیناً لیبر کے بہائو میں رکاوٹ آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں کچھ رکاوٹیں بزنسز کیلئے سپلائی چینز میں خلل کا باعث بنی تھیں، جنہوں نے پرائسز کو اوپر کی جانب دھکیلنے میں کردار ادا کیا تاہم انکا کہنا تھا کہ اب سپلائی چینز میں یہ رکاوٹیں دور ہونا شروع ہو گئی ہیں۔