یوگا، جوار باجرہ سے لوگوں کی صحت بہتر ہو رہی ہے: مودی

نئی دہلی، جنوری ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو یوگا اور ملیٹس (جوار باجرہ اور دیگر موٹے اناج) کے درمیان یکسانیت تلاش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں پوری دنیا میں لوگوں کی صحت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ہندوستان کی پہل پر دونوں کو اقوام متحدہ میں پہچان ملی ہے۔ اپنے ماہانہ ریڈیو نشریات پردھان منتری من کی بات کے 97 ویں ایپی سوڈ میں ہم وطنوں سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا، اگر میں آپ سے پوچھوں کہ یوگا ڈے اور ہمارے مختلف قسم کے موٹے اناجوں میں کیا فرق ہے، تو آپ سوچیں گے کہ یہ بھی کیا موازنہ ہوا۔ آپ حیران ہوں گے اگر میں یہ کہوں کہ دونوں میں بہت کچھ مشترک ہے۔ درحقیقت اقوام متحدہ نے بین الاقوامی یوگا ڈے اور جوار کے بین الاقوامی سال (2023) دونوں کا فیصلہ ہندوستان کی تجویز کے بعد لیا ہے۔ دونوں کے درمیان مماثلت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، دوسری بات یہ ہے کہ یوگا کا تعلق بھی صحت سے ہے اور موٹے اناج بھی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تیسری بات زیادہ اہم ہے کہ دونوں مہمات میں عوامی شرکت کی وجہ سے انقلاب آرہا ہے۔ مسٹر مودی نے کہا کہ جس طرح لوگوں نے بڑے پیمانے پر سرگرم حصہ لے کر یوگا اور فٹنس (جسم کو فٹ رکھنے) کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے، اسی طرح لوگ جوار باجرہ کو بڑے پیمانے پر اپنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس تبدیلی کا بہت بڑا اثر بھی نظر آرہا ہے۔ ایک طرف، چھوٹے کسان جو روایتی طور پر جوار باجرہ پیدا کرتے تھے، بہت پرجوش ہیں۔ وہ بہت خوش ہے کہ دنیا اب اس کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہے۔ انہوں نے موٹے اناج کے تجارتی پہلو کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف پی او) اور نئے کاروباری افراد نے کسان سے غذائیت سے بھرپور باجرے کو مارکیٹ تک لے جانے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ وزیر اعظم نے ایسے کاروباریوں میں آندھرا پردیش کے ناندیال ضلع کے رہنے والے کے وی راما سبا ریڈی جی کا تذکرہ کیا جنہوں نے اس کے لیے ایک اچھی خاصی ملازمت چھوڑ دی۔ وہ اپنی والدہ کے بنائے ہوئے باجرے کے پکوان کے ذائقے سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں باجرے کا پروسیسنگ یونٹ شروع کر دیا۔مسٹر مودی نے مہاراشٹر کے علی باغ کے نزدیک کناڈ گاؤں کی رہنے والی شرمیلا اوسوال کا بھی ذکر کیا، جو کسانوں کو کھیتی باڑی میں ماہر بنا رہی ہیں اور جوار کی پیداوار میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ میں چل رہے ملیٹ کیفے میں چیلا، ڈوسا، موموز، پیزا اور منچورین جیسے باجرے کے پکوان کے مقبول ذائقے کے بارے میں بھی بات کی۔ اوڈیشہ کے ایک قبائلی ضلع سندر گڑھ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1500 خواتین پر مشتمل ایک سیلف ہیلپ گروپ اوڈیشہ ملیٹس مشن کا ذکر بھی وزیر اعظم نے کیا۔ یہاں خواتین موٹے اناج سے کوکیز، رسگلہ، گلاب جامن اور کیک بنا کر آمدنی کررہی ہیں۔ کرناٹک کے کلبرگی میں الند بھتائی نامی کسان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی کسان پروڈیوسر کمپنی نے گزشتہ سال ہندوستانی جوار باجرہ اور موٹے اناج ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی نگرانی میں کام شروع کیا تھا۔ لوگ یہاں کے کھاکرے، بسکٹ اور لڈو کو پسند کر رہے ہیں۔ اس تقریر میں انہوں نے بتایا کہ کرناٹک کے بیدر ضلع میں ہلسر کے ایف پی او سے وابستہ خواتین باجرے کی کاشت کے ساتھ اس کا آٹا بھی تیار کر رہی ہیں۔ آج 12 ریاستوں کے کسان قدرتی کھیتی سے وابستہ چھتیس گڑھ کے سندیپ شرما کے ایف پی او سے وابستہ ہیں۔

 

Related Articles