یوکرین کے مسئلے پر امریکہ روس وزرائے خارجہ ملاقات میں پیش رفت نہ ہو سکی

جنیوا،جنوری۔امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے ساتھ جمعے کے روز جنیوا میں 90 منٹ تک بالمشافہ ملاقات کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین پر روس کے حملے کی صورت میں جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔روس اور امریکہ کے اعلی سفارتکاروں کی اس ملاقات کا مقصد یوکرین کے معاملے پر کشیدگی میں کمی لانا تھا۔ دونوں فریقوں کے درمیان گفتگو میں رپورٹوں کے مطابق کوئی فوری پیش رفت نہیں ہو سکی تاہم اس مسئلے پر سفارتی چینلز کھلے رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔بات چیت کے دوران دونوں فریقوں کی کوشش اپنے مؤقف کی حمایت حاصل کرنا تھا، چونکہ دونوں کے سامنے ملاقات کے مقاصد اور مطالبات ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔ یوکرین میں تناؤ کی صورت حال کے پیش نظر، امریکی وفد نے اس ملاقات کو فیصلہ کْن لمحہ قرار دیا تھا۔ تاہم، بات چیت میں دونوں فریقوں نے کوئی لچک نہیں دکھائی۔بلنکن نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے سب سے اہم مطالبات مسترد کردیے، جنھیں تحریری تجاویز کی صورت میں پچھلے ماہ پیش کیا گیا تھا اور جن کا جمعے کے روز ملاقات میں پھر سے اعادہ کیا گیا۔ روس اس بات کا خواہاں ہے کہ نیٹو وعدہ کرے کہ وہ کبھی بھی یوکرین کو نیٹو کا رکن نہیں بنائے گا اور نیٹو کے اتحادی یوکرین کی سرحدوں پر اپنے ہتھیار نصب نہیں کریں گے، اور یہ کہ نیٹو وسطی اور مشرقی یورپ سے اپنی افواج واپس بلائے گا۔امریکی وزیر خارجہ نے روسی ہم منصب کو بتایا کہ امریکہ آئندہ ہفتے روس کی تجاویز کا تحریری جواب دے گا، اور اس توقع کا اظہار کیا کہ دونوں فریق بہت جلد ایک اور ملاقات کریں گے، جس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ ممکن ہے کہ روس کی جارحیت کم از کم چند دنوں تک کے لیے مؤخر ہو جائے گی۔اس کے باوجود، اس بات کا کوئی عندیہ نہیں کہ امریکہ کا یہ تحریری جواب اس انکار سے مختلف ہوگا جو واضح طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے ہی دے چکے ہیں، جس میں روس کی تجاویز کو مسترد کیا گیا ہے، جس سے آئندہ کی سفارتی کوششوں میں کامیابی کے امکانات دھندلے ہوچکے ہیں۔روس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ اندازاً ایک لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے جس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ روس یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے، حالانکہ روس اس کی تردید کرتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ جارحیت کے امکان کو روکا جائیاور بصورت دیگر متحد ہوکر حملے کاسخت جواب دیا جائے۔ملاقات کے بعد بلنکن نے کہا کہ ہمیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ آج کی ملاقات کے نتیجے میں کوئی پیش رفت حاصل ہوسکے گی، لیکن میرے خیال میں اب ہم اس قابل ہیں کہ اپنے اپنے مؤقف کو واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔بلنکن نے کہا کہ لاروف نے اس بات پر زور دیا کہ روس یوکرین کو فتح کرنے کے عزائم نہیں رکھتا، لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس بات پر بھروسہ نہیں ہے۔بقول ان کے، ہم وہی بات کر رہے ہیں جو سب پر عیاں ہے اور اگر کوئی فرق پڑتا ہے تو وہ الفاظ سے نہیں بلکہ اقدامات اور مثال سے پڑتا ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر روس اپنے اس نکتے میں سچائی کا ثبوت پیش کرنا چاہتا ہے تو پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ تعینات اپنی فوجیں واپس بلا لے۔دریں اثنا، لاوروف نے بات چیت کو تعمیری اور کارآمد قرار دیا، لیکن ساتھ ہی امریکہ کی یقین دہانی پر کچھ کہنے سے احتراز کیا۔لاوروف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم درست راہ پر ہیں یا نہیں۔ ہم تبھی اس بات کا ادراک کر سکیں گے جب امریکہ کی جانب سے ہماری تجاویز پر تحریری جواب موصول ہوگا ۔بلنکن نے کہا کہ مطالبات میں روس نے کسی قسم کی لچک نہیں دکھائی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ان میں کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بالکل بھی نہیں ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو پتا ہے کہ مطالبات کا مقصد بات چیت کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے، ان پر مزید بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔اینٹنی بلنکن نے کہا کہ امریکہ پوٹن اور امریکی صدر جوبائیڈن کی ملاقات پر بات کرسکتا ہے، بشرطیکہ یہ کارگر اور تعمیری ثابت ہوسکے۔ ماضی میں دونوں راہنما جنیوا میں بالمشافہ ملاقات کرچکے ہیں، اور یوکرین پر گفتگو کے ورچوئل اجلاس بھی منعقد کرچکے ہیں جن سے زیادہ تر غیر حتمی نوعیت کے نتائج برآمد ہوئے۔امریکہ اور اس کے اتحادی بارہا یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کی صورت میں وہ فوجی کارروائی تو نہیں کریں گے، لیکن اس کا جواب سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کرکے دیا جائے گا۔ بلنکن نے جمعے کو اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سفارت کاری کو موقع دینے پر پْرْ عزم ہیں، لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو اور روس یوکرین پر جارحیت پر مصر رہا، تو ہم اس کا ‘متحد، فوری اور سخت ترین’ جواب دیں گے ۔لاروف نے کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ یوکرین کو اسلحہ دیا جارہا ہے، اور اس وقت سینکڑوں ملٹری انسٹرکٹر یوکرین پہنچ چکے ہیں ۔ روس نے الزام لگایا ہے کہ مغرب یوکرین میں اشتعال انگیزی کر رہا ہے، اور اس ضمن میں روس نے برطانیہ کی جانب سے یوکرین کو اسلحیکی رسد فراہم کرنے کی مثال دی۔دوسری جانب، ایک اور سفارت کاری کی کوشش اْس وقت سامنے آئی جب فن لینڈ کے صدر سوئی ننستو نے یورپی سیکیورٹی اور یوکرین کے معاملے پر ٹیلی فون کے ذریعے پوٹن سے رابطہ کیا۔ ان کے دفتر نے بتایا ہے کہ فن لینڈ کے صدر نے کہا کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ یورپ کے امن کا تحفظ کیا جائے ۔ادھر، ترکی کے صدر اور نیٹو رکن، رجب طیب ایردوان نے، جن کے روس اور یوکرین کے ساتھ مضبوط مراسم ہیں، دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ ایردوان نے کہا ہے کہ وہ آئندہ مہینے کیف کا دورہ کریں گے اور پوٹن کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے۔جمعرات کے دن بائیڈن نے اپنے کلمات کی وضاحت کی جن کا تعلق روسی فوج کی جانب سے یوکرین میں دراندازی کی کسی نوعیت کی کارروائی سیتھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ روس کی کسی طرح کی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اور یوکرین کی سرحد پار کرنے کو حملہ تصور کیا جائے گاجس اقدام کی روس کو سنگین قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔

Related Articles