یوکرین پر روسی فوج کشی: مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے؟

کیف،مارچ۔رواں برس چوبیس فروری کو روس نے یوکرین پر کئی اطراف سے حملوں کا آغاز کیا تھا۔ اس حملے سے دنیا ششدر رہ گئی تھی۔ ابھی تک روسی فوج کی واپسی دکھائی نہیں دے رہی۔روس اور یوکرین کی جنگ اب دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ ایسا دکھائی نہیں دے رہا کہ صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین میں داخل اپنی فوج کو جنگ روک کر واپس آنے کا حکم دیں۔ ایک مغربی تھنک ٹینک کے ماہرین نے اگلے ہفتوں میں جنگ جاری رہنے کی صورت میں مختلف مناظر کو پیش کیا ہے۔ابھی تک روس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس جنگ میں اس کی فوج کو بالادستی حاصل ہے اور دوسری جانب یوکرینی فوج کی اپنے سے طاقتور فوج کے خلاف مزاحمت بھی حیران کن ہے۔روسی چھاتہ برداروں کی یوکرینی دارالحکومت پر قبضے کی ایک کوشش مقامی فوج ناکام بنا چکے ہیں۔ بڑے یوکرینی شہروں میں بھی ملکی فوج ابھی تک کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ کییف کے ارد گرد کا فضائی دفاعی عمل کمزور ضرور ہوا لیکن یوکرینی فوج ابھی تک مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔یورپی ذرائع کے مطابق اس مزاحمت نے روس کے لیے کئی پریشانیوں کو پیدا کر رکھا ہے۔ اب یوکرین کی فوج کو زمین سے فضا اور ٹینک شکن میزائل کی فراہمی ہو چکی ہے، امکانی طور پر یوکرینی فوج روسی فوجی دستوں کو اس وقت تک کییف سے باہر روکے رکھیں گے جب تک کوئی عسکری حل سامنے نہیں آ جاتا۔مغربی اقوام کی سخت پابندیوں سے روسی اقتصادیات کو شکنجے میں کسنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے اور شاید ان کو دیکھتے ہوئے روسی صدر حملے سے قبل کے اندازوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا فیصلہ کریں۔امریکی تھنک ٹینک رانڈ کارپوریشن کے ایک ماہر سیموئل شاراپ کا کہنا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کی شدت ولادیمیر پوٹن کے یوکرینی حکومت کو گھٹنوں کے بل لانے کے اور اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے جنگی مشن کو ختم کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ روس کے حلیف ملک چین کے صدر شی جن پنگ بھی اگر پوٹن پر جنگ بند کرنے کا دباؤ بڑھائیں تو اس کے نتیجے مثبت ہو سکتے ہیں۔ابھی تک صدر پوٹن ملک کے اندر سے جنگ مخالف صداؤں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ سینٹ پیٹرزبرگ میں روسی سکیورٹی نے چھ ہزار افراد کو جنگ مخالف مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا ہے۔ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ بعض روسی اشرافیہ، امراء اور اراکین پارلیمنٹ سمیت پرائیویٹ تیل نکالنے والے گروپ لْوک آئل نے بھی جنگ بندی کے مطالبے کیے ہیں۔ ابھی تک کریملن ایسی آوازوں پر کان نہیں دھر رہی لیکن اس کے دور رس نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔اس وقت یوکرین کے دارالحکومت کییف کے باہر ملٹری وہیکلز کا بڑا اجتماع دیکھا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کہہ چکے ہیں کہ ابھی بدترین صورت حال نے سامنے آنا ہے۔ انہوں نے یہ بات جمعرات تین مارچ کو صدر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنے کے بعد کہی تھی۔روسی فوج کییف پر قبضہ کرنے اور وولودیمیر زیلینسکی کو منصبِ صدارت سے فارغ کرنے کے بعد بھی بڑا نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے بعد چالیس ملین یوکرینی قوم پر قبضہ کرنا باقی ہو گا۔یوکرین کی سرحدیں سابقہ سوویت یونین کی چار آزاد ہونے والی ریاستوں سے ملتی ہیں اور یہ تمام مغربی دفاعی اتحاد کی رکن بن چکی ہیں۔ نیٹو یہ کہہ چکا ہے کہ اس کی رکن ریاست پر حملہ اس کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔دوسری جانب پوٹن سابقہ سوویت یونین کے دور کی وسعت اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں اور وہ بالٹک ریاستوں میں روسی زبان بولنے والی اقلیتوں کو تحفظ دینے کی کوشش میں بھی ہیں۔ یہ بھی ایک سوال ہے جو پوٹن کی کشور کشائی کا خواب ظاہر کرتا ہے۔اندازوں کے مطابق یوکرین کے بعد روس مالدووا کا رخ کر سکتا ہے۔ مالدووا کا ملک یوکرین اور رومانیہ کے درمیان واقع ہے۔ بہت کم ماہرین کو توقع ہے کہ پوٹن نیٹو کے رکن ملک پر حملہ کرے گا کیونکہ اس سے جوہری جنگ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔غیرجانبدار سویڈن بھی جنگی حالات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے کیونکہ روس کی نگاہیں بحیرہ بالٹک کے اہم جزیرے گوٹ لینڈ پر بھی ہیں۔رانڈ کارپوریشن کے محقق سموئل شاراپ نے متنبہ کیا ہے کہ روس اور نیٹو کے درمیان حادثاتی یا غیر حادثاتی طور پر مْڈبھیڑ کا امکان ہے کیونکہ کوئی بے سمت میزائل یا سائبر حملے کا نتیجہ بھی جنگ کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔روسی صدر جوہری ہتھیاروں کو الرٹ کرنے کا حکم دے چکے ہیں اور ان کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے واضح کیا ہے کہ تیسری عالمی جنگ صرف جوہری جنگ ہو گی۔

Related Articles