یوکرین روس تنازع: لوگوں کے انخلا کے لیے عارضی جنگ بندی

کیف،مارچ۔روسی فوج کے زیر قبضہ یوکرین کے کچھ علاقوں پھنسے ہوئے لوگوں کا منگل کے روز انخلا ممکن ہوا، انہیں عبوری جنگ بندی کے تحت محصور علاقوں سے بسوں میں یا پیدل باہر نکلنے کی اجازت دی گئی تھی۔مقامی حکام کے مطابق، انخلا کی اس کارروائی کے دوران یوکرین چھوڑنے والے لوگ سومی کے مشرقی شہر کے اس علاقے سے نکلے جہاں ایک رہائشی علاقے کی سڑک روسی فضائی حملے کی زد میں آنے سے کم از کم 21 شہری ہلاک ہوگئے تھے۔یوکرین کے دارالحکومت کیف کے قریب واقع ارپین کے قصبے سے خاصی تعداد میں لوگ دیگر مقامات کی جانب منتقل ہوئے ہیں۔ روس کی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ چرنیف، خارکیف اور ماریپول میں انخلا کے چند اضافی مقامات کا تعین کیا گیا ہے۔تقریباً دو ہفتے سے جاری روسی حملے کے دوران کئی بار ان علاقوں سے لوگ باہر نکلنا چاہتے تھے جہاں روسی فوج کی گولہ باری اور فضائی حملوں سے تباہی ہوئی تھی، ان میں ماریپول کا کچھ علاقہ بھی شامل ہے، لیکن وہاں سے انخلا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے منگل کے روز روس پر الزام عائد کیا کہ اْس نے ماریپول میں تین لاکھ پر مشتمل شہری آبادی کو یرغمال بنا رکھا ہے، جہاں انسانی بنیادوں پر کی جانے والی انخلا کی کارروائیوں میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ کلیبا نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ”میں تمام ملکوں سے کہتا ہوں کہ وہ روس سے مطالبہ کریں کہ ہمارے لوگوں کو جانے کی اجازت دیا جائے۔نیٹو کے سیکریٹر ی جنرل ، یینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ یوکرین میں ہونے والی جارحیت کے شہری آبادی پر تباہ کْن اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر محفوظ گزرگاہوں کا ہونا بے انتہا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ انخلا کرنے والے شہریوں پر گولی چلائی گئی۔ بقول ان کے، ”شہری آبادی کو ہدف بنانا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے جو کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے”۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین نے منگل کے روز بتایا ہے کہ 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعدسے اب تک 20 لاکھ سے زائد افراد یوکرین چھوڑ چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ پولینڈ پہنچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین، فلپو گرانڈی نے کہا ہے کہ جنگ عظم دوئم کے بعد یورپ میں لوگوں نے کبھی اس پیمانے کی ہجرت نہیں کی۔ایسے میں جب کہ یوکرین پر روسی جارحیت جاری ہے، سابق سویت جمہوریائیں جو اب نیٹو کی رکن ہیں، ان کی سیکیورٹی سے متعلق ضمانت کی یقین دہانی کرانے کے لیے، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بحیرہ بلقان کی تین ریاستوں کا مختصر دورہ کیا ہے۔لتھوانیا اور لیٹویا کے دورے کے بعد، وہ منگل کو ایسٹونیا پہنچے، جہاں انھوں نے اعلیٰ اہل کاروں سے ملاقات کی۔ انھوں نے یقین دلایا کہ روسی مداخلت سے بچنے کے لیے امریکی اور نیٹو کی فوجیں علاقے میں تعینات رہیں گی۔بلنکن نے کہا کہ ‘اپنی مجموعی طاقت اور بھرپور توانائی کے ساتھ ہم نیٹو سرزمین کے ہر انچ کا دفاع کریں گے”۔ انھوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ بلقان کی طرح اتحاد کے سارے مشرقی خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادی پہلے ہی موجود ہیں۔ایسٹونیا کی وزیر اعظم کیجا کالاس نے بلنکن پر زور دیا کہ بالٹکس کے علاقے میں نیٹو کی ‘مستقل اور بامعنی موجودگی’یقینی بنائی جائے۔ بقول ان کے، روس ایک ”انتہائی جارح ہمسایہ ہے، جس سے ہمیں نقصان ہی پہنچا ہے، اور یوکرین کے خلاف بلاجواز کارروائی پر روس کو سزا ملنی چاہیے۔منگل ہی کے روز، بلنکن پیرس پہنچ رہے ہیں جہاں وہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں سے بات چیت کریں گے، جنھوں نے حال ہی میں یوکرین کا تنازع ختم کرانے کے حوالے سے صدر پوٹن سے گفتگو کی ہے۔

 

Related Articles