گداگری: مجبوری نہیں، آج شاندار پیشہ بن گئی ہے
عارف عزیز (بھوپال)
گداگری، کبھی مجبوری کا دوسرا نام ہوا کرتا تھا پھر یہ پیشہ ہوا اور اب تو یہ باقاعدہ مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ دنیا میں ایسے بے شمار گداگر ہیں جو کروڑ پتی بن گئے لیکن گداگری سے مرتے دم تک جڑے رہے۔ ۲۰۱۵ء کے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں چار لاکھ سے زائد گدا گر تھے لیکن اب یہ تعداد یقینا کئی گنا بڑھ چکی ہوگی۔ بڑے شہروں میں گداگروں کی بڑھتی تعداد نے شہریوں کو خاصا پریشان کر رکھا ہے، مذہبی مقامات اور تریفک سگنل کے علاوہ ہوٹلوں، بینکوں، دکانوں بطور خاص میڈیکل شاپ کے روبرو گداگر ڈیرہ جمائے رہتے ہیں جو پہلے سے پریشان حال آدمی کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہوئے اس کا سخت امتحان لیا کرتے ہیں۔ پیشہ آور گداگر بہترین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ اس بات کو بہتر طور پر جانتے ہیں کہ کب، کہاں اور کیسے بھیک مانگی جائے اور کس طرح لوگوں کے احساسات اور جذبات سے کھلواڑ کرکے ان کی جیبوں سے اپنی ہتھیلی میں رقم منتقلی کی جائے۔ گداگر خود شہریوں کے لئے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو گداگری کی دلدل میں ڈھکیلا جارہا ہے اور خواتین کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسی خواتین بھی مدد طلب کرتی نظر آتی ہیں جنہیں دیکھ کر قطعی محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی مدد کی مستحق ہیں۔ شہر کے مخصوص مقامات پر معصوم بچوں کو سڑک کے کنارے لے کر بیٹھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ بچوں کو سڑک کے کنارے لٹا کر عام طور پر چادر اوڑھا دی جاتی ہے۔ یہ منظر راہ گیروں کے قلب و ذہن پر اس قدر گہرا اثر مرتب کرتا ہے کہ وہ بے ساختہ ان کی مدد کو آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دراصل یہ سارے ہتھکنڈے راہ گیروں کی ہمدردیاں بٹورنے کے لئے ہوا کرتے ہیں۔
بیشتر گداگر ’’اموشنل اتیاچار‘‘ کے پیکر ہوا کرتے ہیں، وہ وقت گیا جب گداگر ’’جو دے اس کا بھلا اور جو نہ دے اس کا بھلا‘‘ یا پھر ’’تم ایک پیسہ دوگے، وہ دس لاکھ دے گا‘‘ کا نعرہ مارا کرتے تھے، یعنی ایک پیسہ لیکر دس لاکھ کی دعا دیا کرتے تھے۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ ان کے ہاتھ میں دس کا نوٹ بھی رکھیں تو وہ دینے والے کے حق میں دعا دینے کے موڈ میں نہیں ہوتے بلکہ فوری دوسرے راہ گیر کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے گداگروں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے ہاتھ پھیلانے اور اڈے بنا کر بھیک مانگنے کو شعار بنا رکھا ہے۔ کیا ہم نے کبھی ان کے متعلق سوچا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں روزانہ سینکڑوں روپئے اکٹھے ہوجاتے ہیں مگر وہ بھیک مانگنے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔ وہ اپنے گداگری کے ٹھکانوں پر روزانہ نہایت پابندی سے کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ روزانہ ہی وہ ہاتھ کیوں پھیلاتے ہیں؟ ان کی ضرورتوں کا کشکول لبریز کیوں نہیں ہو پاتا؟ کچھ ایسے ڈھیٹ قسم کے گداگر بھی ہوتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ دینے تک وہ راہ گیر کو آگے بڑھنے نہیں دیتے بلکہ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو دس بیس روپیوں سے کم خیرات نہیں لیتے اور مسلسل مطالبہ کرتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
حکومت و انتظامیہ کی جانب سے گداگروں کو شہر سے ہٹانے کی وقتاً فوقتاً کوشش کی جاتی ہے لیکن نتائج ہمیشہ صفر ہی رہے۔ ہر بار بڑے پیمانے پر گداگروں کو شہر سے ہٹانے کی مہم کا آغاز کیا جاتا ہے لیکن جانے کس کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ چند دن بعد پھر سے وہی گداگر مذکورہ ہی مقامات پر نظر آتے ہیں جہاں سے انہیں ہٹایا گیا تھا۔ گداگروں کو محض سڑک سے ہٹانا، اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جو واقعی غریب ہیں اور مدد کے مستحق ہیں، ان کی باز آبادکاری ضروری ہے۔