کیا خواتین کو حیض کے دوران چھٹیاں ملنی چاہیئں؟

میڈرڈ،مئی۔اسپین یورپ کا پہلا ایسا ملک بن سکتا ہے، جہاں پیریڈز کے دوران خواتین چھٹیاں لے سکتی ہیں۔ وہ دفاتر، جہاں پہلے ہی خواتین کو ان دنوں میں چھٹیاں ملتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے سہولت کا باعث ہے۔جیوڈی برچ نے اپنا یہ تجربہ ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” مجھے یاد ہے میں کلاس روم میں پڑھا رہی تھی لیکن میں اتنی تکلیف میں تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کروں اور مجھے وہاں سے جانا پڑا۔‘‘ برچ اب برطانیہ میں ‘پیل وک پین سپورٹ نیٹ ورک‘ چلاتی ہیں۔ برچ کا شمار ان لاکھوں خواتین میں ہوتا ہے، جن کے لیے پیریڈز انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اس بیماری کو ‘ڈسمینوریا‘ کہا جاتا ہے۔ اس دوران خواتین بہت زیادہ خون بہنے، تھکن، درد، الٹیوں اور اسہال کی تکلیف سے گزرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 91 فیصد خواتین اس بیماری کا سامنا کرتی ہیں۔ ان میں سے 29 فیصد بہت زیادہ درد محسوس کرتی ہیں۔کچھ ممالک میں ملازمت پیشہ خواتین کو حیض کے دوران چھٹیاں لینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ چھٹیاں متنازعہ ہیں۔ کچھ افراد کی نظر میں ان چھٹیوں کے باعث پیریڈز سے متعلق دقیانوسی خیالات کو مزید تقویت ملتی ہے اور کچھ افراد خواتین کو یہ خصوصی چھٹیاں دیے جانے کو غیر منصفانہ بھی ٹھہراتے ہیں۔ لیکن ان تحفظات کے باوجود اسپین وہ پہلا ملک بن سکتا ہے، جہاں خواتین کو اس قسم کی چھٹیاں مل سکیں گی۔اسپین میں حیض میں چھٹیوں سے متعلق ممکنہ قانون کی لیک شدہ کاپی کے مطابق خواتین کو ہر ماہ تین چھٹیاں مل سکتی ہیں۔ ابھی تک تمام تفصیلات واضح نہیں ہیں لیکن وہی خواتین چھٹی کی حقدار ہوں گی، جو بہت زیادہ تکلیف میں ہیں اور جو اپنے دفتر میں ڈاکٹر کا سرٹیفیکیٹ پیش کر سکتی ہیں۔ اسپین کے انسٹیٹیوٹ برائے خواتین کی ڈائریکٹر ٹونی موریلاس کا کہنا ہے، ”ہمارے ملک میں اس بات کا اعتراف بہت مشکل سے کیا جاتا ہے کہ ماہواری ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے، لہذا اس سے متعلق خواتین کو کچھ حقوق حاصل ہونے چاہیئں۔‘‘ موریلاس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسپین میں ہر دوسری خاتون تکیف دہ ماہواری کے عمل سے گزرتی ہے۔واضح رہے کہ جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، انڈونیشیا اور زیمبیا میں قومی سطح پر خواتین کو ان کی تنخواہ کے ساتھ ماہواری کے دوران چھٹیاں لینے کی اجازت ہے۔جنوبی ایشائی ملک بھارت میں ‘زوماٹو‘ فوڈ ڈیلیوری کی کمپنی ہے۔ اگست 2020ء سے اس کمپنی میں حیض کے دوران خواتین کو چھٹیاں لینے کی اجازت ہے۔ کمپنی کی کمیونیکیشن ہیڈ وائیدیکا پراشار کے مطابق خواتین ہر سال پریڈز کے باعث دس چھٹیاں لے سکتی ہیں۔ پراشار بتاتی ہیں کہ خواتین کو بس کیلنڈر میں اپنے اسٹیٹس میں لال رنگ کا نشان بنانا ہوتا ہے۔ انہیں کسی کو کچھ اور نہیں بتانا ہوتا۔ پراشار کے مطابق وہ بھی اسی طرح یہ چھٹیاں حاصل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق زوماٹو میں اس سارے عمل کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور خواتین کو کسی شرمندگی یا تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔پراشار کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی میں ایک ایسے ماحول کو پنپنے دیا جا رہا ہے، جہاں خواتین پیریڈز کے دوران چھٹی لینے سے نہ گھبرائیں، ” اس پالیسی کا اطلاق ٹرانس جینڈر افراد پر بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک جسمانی عمل ہے، کسی کو اس پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اس خاتون افسر کے مطابق خواتین کو یہ سہولت فراہم کرنے سے دراصل کمپنی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بھارت میں صرف سولہ فیصد خواتین دفاتر میں کام کرتی ہیں۔ زوماٹو کمپنی کا ماننا ہے کہ خواتین دوست پالیسیوں کے باعث خواتین اس کمپنی میں نوکری حاصل کرنا چاہتی ہیں اور یہاں ملازمت کرنے والی خواتین نوکری نہیں چھوڑنا چاہتیں۔واضح رہے کہ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کچھ ممالک میں خواتین کو پیریڈز کے دوران شدید تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت اور نیپال میں اب بھی ایسے علاقے ہیں، جہاں پیریڈز کے دوران خواتین کو گھر سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ پورا ہفتہ گھر سے باہر ان کے لیے بنائی گئی مخصوص جگہ میں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور دیگر قدامت پسند ممالک میں اس موضوع پر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین تکلیف کے باوجود کسی کو اپنی طبیعت کے بارے میں بتانے سے گریز کرتی ہیں۔ غریب ممالک میں بہت سی خواتین کے لیے پیریڈز میں استعمال ہونے والی مصنوعات یا تو میسر ہی نہیں ہیں یا بہت مہنگی ہیں۔ غیر مناسب اشیاء￿ کے استعمال سے بہت سی خواتین بیمار ہو جاتی ہیں۔پراشار کے مطابق یہ ممکن ہے کہ کچھ خواتین بہت زیادہ بیمار نہ ہوں اور وہ چھٹی لے لیں لیکن ہمارے نوٹس میں ایسی کوئی معلومات نہیں، جس سے پتا چلتا ہو کہ ان چھٹیوں کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔ پراشار کہتی ہیں کہ دفاتر کو پوری کوشش کرنا چاہیے کہ وہ خواتین کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ دفاتر میں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اور وہ بطور انسان، بطور ایک خاتون اور بطور ایک ماں بھی بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

Related Articles