چین نے امریکہ میں تائیوان کے سفیر پر پابندیاں عائد کردیں

بیجنگ،اپریل۔چین نے امریکہ میں تائیوان کی ڈی فیکٹو سفیر شاو بی کم پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں جن کے تحت ان کے اور خاندان کے افراد کا چین، ہانگ کانگ اور مکاؤ میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔خبروں کے مطابق چین کے تائیوان امور کے دفتر کی طرف سے اعلان کردہ پابندیوں میں شاو کم سے متعلق سرمایہ کاروں اور کمپنیوں پر بھی چین کی تنظیموں اور افراد کے ساتھ تعاون کرنے پر پابندی ہے۔خیال رہے کہ شاو کم کے خلاف یہ پابندیاں تائیوان کی صدر سائی انگ وین کی اس ہفتے امریکہ میں قیام کے دوران امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی سے ملاقات کے بعد عائد کی گئی ہیں۔بیجنگ میں وزارت خارجہ نے امریکہ کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ اور ریگن لائبریری اور ان کے سربراہوں کے خلاف بھی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ چینی وزارت داخلہ نے کہا کہ دونوں اداروں نے سائی کی علیحدگی پسند سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم اور سہولیات فراہم کیں۔ان پابندیوں کے اعلان کے ردعمل میں تائیوان کی وزارت خارجہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین کو سائی کے بیرون ملک دوروں میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے۔تائیوان کی وزارت خارجہ کہا کہ اگر بیجنگ سمجھتا ہے کہ ان پابندیوں کا کوئی اثر ہوگا تو وہ ’’خود کو دھوکہ دے رہا ہے‘‘۔ایک بیان میں تائیوان کی وزارت نے کہا، ’’یہ نہ صرف ہمارے لوگوں کی دشمنی کو گہرا کرتا ہے بلکہ کمیونسٹ حکومت کی غیر معقول اور مضحکہ خیز نوعیت کو بھی بے نقاب کرتا ہے‘‘۔چین تائیون کو ایک الگ ملک کی بجائے اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے جب کہ تائیوان کی حکومت اس دعویٰ کو مسترد کرتی ہے۔چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے فوری طور پر چین میں یونیورسٹیوں، اداروں اور دیگر تنظیموں اور افراد کو ہڈسن انسٹی ٹیوٹ اور ریگن لائبریری اور ان کے رہنماؤں کے ساتھ مشغول ہونے اور تعاون کرنے سے روک دیا ہے۔چین نے پابندیوں کے ذریعہ تائیوان کے رہنماؤں کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے، اور چین میں ان کی تمام جائیدادیں منجمد کر دی ہیں۔ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے ایک بیان میں چینی کمیونسٹ پارٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسے سائی کی میزبانی کرنے پر فخر ہے اور وہ تائیوان کے ساتھ اور سی سی پی (چین کی کمیونسٹ پارٹی ) کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے۔ریگن لائبریری نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔خبروں کے مطابق چینی پابندیوں کا عملی طور پر بہت کم ہی اثر پڑے گا کیونکہ تائیوان کے سینئر حکام چین کا دورہ نہیں کرتے جب کہ چینی عدالتوں کا تائیوان میں دائرہ اختیار نہیں ہے۔

Related Articles