پناہ کیلئے برطانیہ آنے والوں کی زندگی
تحریر:ایلکس فورسائتھ۔۔۔لندن
اْن افراد کی زندگی کیسی ہوتی ہے جو برطانیہ میں پناہ کی تلاش میں آتے ہیں اور یہاں آباد ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں،ایسے مزید لوگوں کو قبول کرنے کے بارے میں مقامی افراد کے احساسات کیا ہیں۔یارکشائر کے ایک قصبے میں تنازعات اور ظلم و ستم سے بھاگنے والوں کو پناہ دینے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ہیلی فیکس کے وسطی علاقے سے گزرتے ہوئے افغانستان میں حالیہ واقعات کے بارے میں بات کرنے کے لیے لوگوں کو ڈھونڈنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔کابل سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے افراد اور لوگوں کی ہوائی جہازوں سے لٹکتے اور ہوائی اڈے کی دیواروں پر چڑھ کر بچ جانے کی کوششوں کی تصاویر ہزاروں میل دور ویسٹ یارکشائر کے بازاروں والے اس قصبے میں بھی زیر بحث ہیں۔پہلے خریدار جس کو میں نے روکا اس نے انھیں ’دل دہلا دینے والا‘ قرار دیا اور اصرار کیا کہ برطانیہ کو ضرورت مندوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے چاہیے۔ دوسرے نے برطانیہ میں افغان مہاجرین کو دوبارہ آباد کرنے کے حکومتی وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’20 ہزار ٹھیک ہوں گے‘ لیکن اگر تعداد بڑھ گئی تو یہ مسئلہ بن سکتا ہے۔کیلڈرڈیل وہ علاقہ ہے جس میں ہیلی فیکس ہے اور یہاں جنگ اور ظلم سے بچ کر پناہ کے متلاشیوں کو بسانے کی لمبی تاریخ ہے۔فلورنس کاہورو اب بھی پناہ گزین ہونے کا ’بدنما داغ’ محسوس کرتی ہیں،یہ علاقہ 20سال سے زائد عرصے سے ایک ایسے نظام کا حصہ رہا ہے جو ملک بھر میں پناہ گزینوں کو مختلف علاقوں میں ’پھیلانے‘ کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ کسی ایک علاقے کو زیادہ دباؤ سے بچایا جا سکے۔فلورنس کاہورو کو 2016 میں پناہ کی درخواست دینے کے بعد ہیلی فیکس بھیجا گیا تھا۔ان کی درخواست پر کارروائی مکمل ہونے کو کئی سال لگے جس کے دوران انھیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے اْن کے لیے مقامی کمیونٹی میں گھل مل جانا مشکل ہو گیا تھا۔انھوں نے کہا ’جب آپ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ آپ اسائلم (یعنی پناہ) لے رہے ہیں تو وہ آپ کو ایک طرح سے دھتکار دیتے ہیں۔وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم پوسٹ آفس سے اپنے پیسے (مالی امداد) وصول کرتے تھے لہٰذا جب بھی مجھے وہاں جانا پڑتا تو وہاں لوگ آپ کو ایسے دیکھتے تھے جیسے آپ اْن کے پیسے لینے برطانیہ آئے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ جب بھی پیسے لینے کا دن آتا تھا تو مجھ پر اضطراب طاری ہو جاتا تھا۔اْن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس سے جو تکلیف ہوئی وہ اْس وقت ختم نہیں ہو جاتی جب آپ کی درخواست منظور ہو جاتی ہے، یہ احساس آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ہیلی فیکس 20 برس سے پناہ گزینوں کو جگہ دے رہا ہے،اپنی ذہنی صحت کی خاطر فلورنس نے ایک فلاحی ادارے سینٹ آگسٹینز میں رضاکارانہ خدمات شروع کیں، یہ ادارہ ہیلی فیکس میں پناہ گزینوں کی مدد کرتا ہے اور انھیں مشورے دینے کے علاوہ اْن کی رہنمائی کرتا ہے۔ان کے کام کا ایک بڑا حصہ لوگوں کو مقامی کمیونٹی میں گھل مل جانے میں مدد دینا تھا۔ایک سینئر ورکر بیکی ہیلی ویل نے کہا کہ ’انضمام ایک بہت بڑی چیز ہے کیونکہ (اسائلم کی درخواستوں میں) تاخیر لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس بہت سے انتہائی ہنر مند لوگ ہیں جو لمبی کارروائی کی وجہ سے اپنا ہنر کھو دیتے ہیں‘۔حنا گیلانی کا کہنا ہے کہ وہ مقامی کمیونٹی کا حصہ بننے کے لیے پرعزم تھیں،حنا گیلانی خوب جانتی ہے کہ یہ کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔غیرت کے نام پر تشدد کی دھمکیوں کے بعد وہ اپنے ملک سے بھاگ نکلیں اور پناہ لینے کے لیے برطانیہ پہنچیں۔ یہاں انھیں ہیلی فیکس بھیج دیا گیا۔انھیں اس عمل نے ’افسردہ‘ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب لوگوں کو پتہ چلتا کہ میں نے اسائلم لیا ہے تو ان کا میری طرف رویہ بدل جاتا تھا جیسے میں نے کوئی جرم کیا ہو۔‘’میں تعلیم یافتہ تھی، میں نے طب میں ماسٹرز کیا تھا لیکن میں کام نھیں کر سکتی تھی، بہت ہی مشکل تھی، یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا، آپ تو صرف اچھے خواب دیکھنا چاہتے ہیں، ہم بھی یہی چاہتے ہیں اور وہ خواب آپ سے چھن جاتا ہے۔‘کیلڈرڈیل میں ہر وقت 300 سے 400 ایسے لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں جو اپنی پناہ کی درخواست پر کارروائی مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں،برطانوی ایوان زیریں کی لائبریری کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پناہ گزینوں کو ’پھیلانے‘ کا نظام غیر متناسب ہے، کچھ علاقے دوسروں کے مقابلے میں جگہ دینے میں کہیں آگے ہیں جبکہ 32 فیصد مقامی حکام ایسے ہیں جو بالکل بھی لوگوں کو نہیں لے رہے۔وسط سے کم گھریلو آمدنی رکھنے والے علاقوں نے نسبتاً زیادہ پناہ گزینوں کو اپنایا ہے۔ انگلینڈ کے شمال مشرق میں تعداد سب سے زیادہ ہے جو کہ جنوب مشرق سے 17 گنا زیادہ ہے۔برطانیہ کے ہوم آفس نے وعدہ کیا ہے کہ سنہ 2029 تک ہر علاقے میں پناہ گزینوں کا تناسب ملک کی آبادی کے مطابق ہو گا اور ملک کا ہر حصہ اس تناسب پر پورا اترے گا۔کیلڈرڈیل کونسل کے لیڈر ٹم سوئفٹ جن کا تعلق برطانیہ کی لیبر پارٹی سے ہے، انھوں نے کہا کہ مقامی لوگ دل کھول کر لوگوں کا استقبال کرنا چاہتے ہیں لیکن کونسلز صرف اس صورت میں آگے بڑھ سکتی ہیں جب مقامی نظام پر اضافی دباؤ سے بچنے کے لیے اضافی وسائل ہوں۔انھوں نے مجھے بتایا ’ہم اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن مقامی کونسلز بہت زیادہ دباؤ میں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی چیز ہے جسے قومی ٹیکس کے تحت مناسب طریقے سے وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز کی مقامی کونسلز کے لیے 5 ملین پاؤنڈ کی اضافی رقم کا اعلان کیا ہے جو افغانستان سے آنے والے لوگوں کو رہائش فراہم کرنے کی پیشکش کریں گے۔