نیتاجی سبھاش چندر بوس زندہ ہیں یا نہیں۔ہندوستانی کرنسی پر نیتاجی کی تصاویر کی اشاعت ہوسکتی ہے یا نہیں

کلکتہ ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا

کلکتہ,دسمبر ۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے زندہ ہونے یا مرنے اور ہندوستانی کرنسی میں نیتاجی کی تصویروں کی اشاعت سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو اس معاملے میں حلف نامہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا نیتاجی زندہ ہیں یا نہیں اس کے بابت عدالت کو مطلع کریں اور کیا گاندھی جی کی طرح ہندوستانی کرنسی پر نیتاجی کی تصویر شائع کی جاسکتی ہے۔مرکزی حکومت سے اگلے 6ہفتوں میں جواب طلب کیا گیا ہے۔مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے والے ایڈوکیٹ ہرین باغچی نے عدالت سے کہا کہ ہندوستانی کرنسی میں مہاتماگاندھی کی تصویروں کو شائع کیا جاتا ہے۔لیکن ہندوستان کی تحریک آزادی میں گاندھی جی کی طرح نیتا جی سبھاش چندر بوس کی شمولیت اور کردار کوئی کم نہیں ہے۔ اس لیے کرنسی پر نیتا جی سبھاش چندر بوس کی تصویر بھی ہونی چاہیے۔ عدالت نے مرکز سے اس سلسلے میں حلف نامہ دینے کو بھی کہا۔ 23جنوری کو نتیاجی کے یوم پیدائش کے طور پر منایاجاتا ہے۔تاہم تائیوان سے نیتاجی کی گمشدگی کا معاملہ گز8دہائیوں سے معمہ بناہوا ہے۔ان کی زندگی اور موت سے متعلق مرکزی حکومت نے اب تک کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے۔ 2015 میں مغربی بنگال حکومت نے نیتا جی سے متعلق تمام ‘خفیہ’ فائلیں اسٹیٹ آرکائیوز میں جاری کر دی تھیں۔ 1954 سے 1974 تک کی یہ فائلیں بتاتی ہیں کہ اس وقت نیتا جی کے لاپتہ ہونے کی 10 تحقیقات ہوئی تھیں۔ تمام تحقیقات ایک ہی دعویٰ کرتی ہیں۔ ان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ 16 اگست 1945 کو تائیہوکو طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اس دعوے کو کئی محققین نے مسترد کر دیا ہے۔ جسٹس مکھرجی نے 2005 میں کمیشن آف انکوائری کو بتایا کہ 16 اگست 1945 کو تائیہوکو میں ہوائی جہاز کے حادثے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مارچ 2003 میں تائی پے کے میئر نے ایک ہندوستانی صحافی کو بتایا کہ تائی پے سٹی آرکائیوز میں اس دن تائپے میں ہوائی جہاز کے حادثے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔نیتا جی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ کبھی برآمد نہیں ہوا۔ تائیہوکو میونسپلٹی کے کریمیشن رجسٹر کے ریکارڈ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 19 سے 21 اگست کے درمیان چار مردوں کو وہاں دفن کیا گیا تھا۔ لیکن اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ نیتا جی ان میں شامل تھے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد مرکزی حکومت اس معمہ کو سلجھانے کے لیے کوئی واضح معلومات فراہم کرے گی یا نہیں اس پر پورے ملک کی نظر ہے۔

 

Related Articles