نوزائیدہ بچوں کو بہرے پن سے بچانے کیلئے این ایچ ایس میں ریپڈ ٹیسٹ کی سفارش

لندن ،فروری ۔نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نوزائیدہ بچوں کو بہرہ ہونے سے بچانے میں مدد کیلئے ایک ریپڈ ٹیسٹ کو استعمال کرے گی۔ اس ٹیسٹ کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کی سماعت کو محفوظ رکھا جا سکے گا، اس ٹیسٹ کو این ایچ ایس ہسپتالوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔ کچھ بچوں کیلئے عام طور پر استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹکس زہریلی ثابت ہو سکتی ہیں۔ دوائیں کان کے اندر موجود حسی خلیات کو نقصان پہنچاتی ہیں، جس کی وجہ سے سماعت مستقل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ نیا ٹیسٹ، جو بچوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کرتا ہے، ان لوگوں کو تیزی سے پہچان سکتا ہے، جو کمزور ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مختلف قسم کی اینٹی بائیوٹک دی جا سکتی ہے اور وہ زندگی بھر سماعت کو پہنچنے والے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ اگر نوزائیدہ بچے کو سنگین بیکٹیریل انفیکشن ہوتا ہے تو Gentamicin ان کیلئے پہلی چوائس کی اینٹی بائیوٹک ہے۔ یہ زندگی بچانے والی اور لوگوں کی اکثریت کیلئے محفوظ ہے۔ تاہم اس کے سائیڈ ایفیکٹس بہت ہی کم ہیں۔ انگلینڈ اینڈ ویلز میں تقریباً 1250 بچے اپنے جینیٹک کوڈ میں ایک معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جو اینٹی بائیوٹک کو ان کے کانوں کے بالوں کے خلیوں سے زیادہ مضبوطی سے باندھنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے وہ زہریلی ہو جاتی ہے۔ یہ چھوٹے بال آوازوں کو برقی سگنلز میں تبدیل کرنے میں مدد کرتے ہیں، جن کو دماغ سمجھا جاتا ہے۔ اگر وہ خراب ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں سماعت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے مضر اثرات سب کو معلوم ہیں لیکن اب تک ایسا کوئی ٹیسٹ سامنے نہیں آیا تھا، جس سے کافی تیزی سے نتائج سامنے آ سکیں۔ اس عارضے کے علاج میں تاخیر کرنا خطرناک ہوگا اور اس میں متبادل اینٹی بائیوٹکس استعمال نہیں کی جاتیں کیونکہ ان کے اپنے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں کیونکہ ان اینٹی بائیوٹکس کے مزاحمت کرنے کے خدشات ہوتے ہیں۔ نئی جینڈرائیو کٹ بچے کے گال کے اندر سے لئے گئے نمونے کا تجزیہ کرتی ہے، مانچسٹر اور لیورپول میں دو نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹوں میں ٹیسٹس سے سامنے آیا کہ صرف 26 منٹ میں یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سا بچہ سماعت سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور اس ٹیسٹ کے استعمال کی وجہ سے اس کے علاج میں تاخیر نہیں ہوئی۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسی لینس (این آئی سی ای) نے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی دوائیں اور ٹیکنالوجی این ایچ ایس استعمال کرتی ہے، نے عارضی طور پر اس ٹیسٹ کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ این آئی سی ای میں میڈیکل ٹیکنالوجی کے عبوری ڈائریکٹر مارک چیپ مین نے کہا کہ سماعت سے محرومی بچے اور ان کے خاندان کی زندگی کے معیار پر کافی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس نئے ٹیسٹ کی دستیابی سے این ایچ ایس سٹاف ایسے بچوں کو سماعت کی محرومی کے خطرے سے بچا سکتا ہے، جن کو اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہرے پن کے علاج کیاخراجات بہت زیادہ ہیں۔ کوکلیئر امپلانٹس کے جوڑے کی فٹنگ پر، جو آوازوں کو ایک برقی سگنل میں تبدیل کرنے کیلئے مائیکرو فون کا استعمال کرتے ہیں، تقریباً 65000 پونڈ لاگت آتی ہے۔ این آئی سی ای کی سفارشات براہ راست انگلینڈ اینڈ ویلز پر لاگو ہوتی ہیں لیکن ان کو اکثر زیادہ وسیع پیمانے پر اپنایا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو حتمی منظوری سے قبل ابتدائی تشخیص کے حصے کے طور پر ہسپتالوں کی ایک رینج میں فراہم کیا جائے گا تاکہ اس بات پر غور کیا جا سکے کہ یہ دیکھا جا سکے کہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال کا اس پر کیا اثر پڑتا ہے۔ نیشنل ڈیف چلڈرن سوسائٹی (این ڈی سی ایس) چیف ایگزیکٹو سوسن ڈینیئلز کا کہنا ہے کہ یہ نیا ٹیسٹ انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اس اہم پیش رفت کے حوالے سے مزید شواہد اکٹھے کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ اضافی ثبوت ٹیکنالوجی کے رول آؤٹ کی دلیل کی حمایت کرے گا، جو مستقبل میں بچوں میں بہرے پن کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

 

Related Articles