ناسا کا لوسی مشن سیارہ مشتری کے لیے روانہ، اسے وہاں کس چیز کی تلاش ہے؟
نیویارک،اکتوبر۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے فوصل یعنی محجر کی دریافت کے لیے کیپ کیناورل سے ایک نیا مشن شروع کیا ہے۔ اسے لوسی مشن کا نام دیا گیا ہے اور یہ مشن سیارہ مشتری (جوپیٹر) کے لیے روانہ ہوا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے سب سے بڑے سیارے کے مدار میں گیس کے بڑے ٹکڑے کے آگے اور پیچھے جو نجمیہ یا سیارچوں کا ایک غول ہے اس کا دو گروپس میں مطالعہ کیا جائے گا۔امریکی خلائی ایجنسی (ناسا) کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ چیزیں اس سیارے کی تشکیل کے دوران بچ گئی تھیں اور نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں اہم معلومات ان ٹروجنوں (باقیات) میں چھپی ہو سکتی ہیں۔ناسا کا کہنا ہے کہ اس پر تحقیق سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں سیاروں کی موجودہ پوزیشن کے پس پشت کیا عوامل کار فرما ہیں۔لوسی مشن فلوریڈا کے کیپ کیناورل سپیس فورس سٹیشن سے سنیچر کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح نو بج کر 34 منٹ پر ایٹلس وی راکٹ کے ذریعے روانہ ہوا۔اگلے 12 برس میں اس مشن پر 981 ملین امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ اس دوران لوسی مشن سات ٹروجنز کی جانچ اور ان کا مطالعہ کرے گا۔
اس کا نام لوسی کیسے پڑا؟:ناسا نے اس مشن کا نام لوسی کیوں رکھا ہے؟ سنہ 1974 میں ایتھوپیا میں حضر نامی جگہ سے ایک انسانی ڈھانچہ ملا تھا۔ اس کے مطالعے کے بعد سائنسدانوں نے اسے دنیا کا قدیم ترین انسانی ڈھانچہ قرار دیا۔ اس دھانچے کا نام لوسی رکھا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بنی نوع انسان کہاں سے آیا ہے۔مشتری پر ٹروجن کی چھان بین کے لیے ناسا نے اپنے مشن کا نام اسی اولین انسانی ڈھانچے کے نام پر رکھا ہے۔ یہ خلائی جہاز محجر کی تلاش میں نکلا ہے جو زمین سے لاکھوں کلومیٹر دور مشتری کے ساتھ سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔کولوراڈو کے بولڈر میں ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں لوسی مشن کے لیڈ ریسرچر ہال لیوائزن نے کہا: ٹروجن سیارچے مشتری کے ساتھ یا اس کے آگے اور پیچھے اپنے مدار میں 60 ڈگری کے زاویے پر گردش کرتے ہیں۔ وہ سیارچے مشتری اور سورج کے درمیان کشش ثقل کے اثر کی وجہ سے ٹکے ہوئے ہیں۔ جو چیزیں نظام شمسی کی تاریخ میں ان کی تشکیل کے وقت وہاں زخیرہ کی گئی ہیں وہ وہاں ہمیشہ کے لیے فکس ہو جاتی ہیں۔ اس لیے یہ چیزیں واقعی فوسل (محجر) ہیں جن سے ہمارے یہ سیارے بنے ہیں۔ لوسی کو ایک شہر یا اس سے بڑے سائز کی چیز کا مطالعہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو اس شے کے سائز، ساخت، سطح کی خصوصیات اور درجہ حرارت کی تفصیل بتائے گا۔اگر ٹروجن انھی اشیا پر مشتمل ہیں جن سے مشتری کے چاند بنے ہیں تو یہ معلوم ہو گا کہ وہ سورج سے اسی فاصلے پر بنے ہیں جیسے یہ گیس کے بڑے سیارے بنے ہیں۔ لیکن اس کی توقع نہیں ہے۔ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان ڈاکٹر کارلی ہویٹ نے کہا: مثال کے طور پر اگر وہ انھی چیزوں سے بنے ہیں جو ہم کوپر بیلٹ میں دیکھتے ہیں تو یہ ہمیں بتائے گا کہ شاید وہ وہاں تعمیر کیے گئے ہوں اور پھر بعد میں کسی مقام پر کششِ ثقل سے کھینچ لیے گئے ہوں۔ ڈاکٹر کارلی ہویٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ مشن ہمارے ماڈلز کا امتحان ہے کیونکہ ہمارے نظریہ کے مطابق جب نظام شمسی بن رہا تھا تو کچھ چیزیں کشش ثقل کی وجہ سے باہر پھینک دی گئیں اور کچھ اندر کھینچ لی گئیں۔ سائنسدانوں کے اس نظریہ کے مطابق جب نظام شمسی تشکیل پا رہا تھا اس وقت کھینچنے کی وجہ سے دھول اور گیس کے ذرات کی ایک بڑی مقدار اکٹھی ہو گئی۔ اس سے سورج کے گرد مختلف سیارے، سیارچے اور دیگر چھوٹے اور بڑے اجسامِ فلکی بن گئے۔ اس عمل میں کچھ ملبہ یا ٹروجن باقی رہ گئے۔کششِ ثقل کی وجہ سے یہ اجسامِ فلکی یا تو سورج میں ضم ہو گئے یا کچھ نظام شمسی کے بیرونی حصے میں جمع ہو گئے جسے کوپر بیلٹ کہا جاتا ہے۔یہ سب سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ کوپر بیلٹ میں جمع ہونے والے سیارچوں اور اس کے ذریعے نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں نئی چیزیں سامنے آتی رہی ہیں۔
لوسی خلائی جہاز ٹروجن تک کب پہنچے گا؟:یہ خلائی جہاز سنہ 2027-28 تک ٹروجنز کے اہم گروپ تک پہنچ جائے گا جبکہ دم چھلے تک اس کے پہنچنے کی توقع سنہ 2033 تک ہے۔ یہ سارا سفر تقریبا 4 ارب میل یا 6 ارب کلومیٹر پر مبنی ہے۔لوسی مشن کا مقصد ٹروجنز پر تحقیق کرنا ہے، لیکن مشتری تک پہنچتے ہوئے وہ دوسرے سیارچوں ڈونلڈ جانسن کے پاس بھی جائے گا۔