میانمار میں چار جمہوریت نواز کارکن فنا کے گھاٹ اتار دیے گئے
ینگون،جولائی۔میانمار میں سن اسی کی دہائی کے بعد موت کی سزا پر پہلی بار عمل درآمد ہوا ہے۔ سزائے موت پانے والوں پر دہشت گردانہ کارروائیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان میں کارکن کیاو من یو اور ایک سابق قانون ساز بھی شامل ہیں۔میانمار کے سرکاری میڈیا نے 25 جولائی پیر کے روز بتایا کہ فوجی حکام نے جمہوریت نواز چار کارکنوں کو پھانسی دے دی ہے۔ ایک مقامی اخبار گلوبل نیو لائٹ آف میانمار کی اطلاعات کے مطابق، جن کارکنوں کو جیل میں پھانسی دی گئی، ان پر وحشیانہ اور غیر انسانی دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی قیادت کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔میانمار میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران موت کی سزا پر عمل درآمد کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ جن افراد کو پھانسی دی گئی ہے، ان میں جمہوریت نواز ایک معروف کارکن جبکہ ایک سابق قانون ساز بھی شامل ہیں۔
سزائے موت پانے والے کون؟اخبار گلوبل نیو لائٹ آف میانمار کے مطابق پھانسی پانے والے افراد میں جمہوریت کے لیے جد و جہد کرنے والے معروف کارکن کیاو من یو اور ایک سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ فنکار فاؤ زیا تھاؤ بھی شامل ہیں۔ تھاؤ معزول رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) سے رکن پارلیمان رہ چکے تھے۔اس کے علاوہ جن دو دیگر افراد کو پھانسی دی گئی ہے ان کے نام، ہلا مایو آنگ اور آنگ تھورا زاؤ بتایا گیا ہے۔اخبار دی گلوبل نیو لائٹ آف میانمار کا کہنا ہے کہ ان چاروں پر انسداد دہشت گردی کے قانون اور دیگر تعزیری دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اخبار کے مطابق انہیں جیل کے طریقہ کار کے تحت پھانسی دی گئی ہے۔
ڈرانے کی کوشش:جن چار افراد کو پھانسی دی گئی ہے ان کے خلاف بند کمرے میں مقدمے کی سماعت ہوئی تھی اور گزشتہ جنوری میں ہی انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے فوج کے خلاف لڑنے میں دیگر ملیشیاؤں کی مدد کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس میانمار کی کی فوج نے جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔اقوام متحدہ سے وابستہ دو ماہرین نے منصوبہ بند طریقے سے انجام دی گئی ان پھانسیوں کو لوگوں میں خوف پیدا کرنے کی ایک مذموم کوشش قرار دیا ہے۔میانمار کے حکام بغاوت کے خلاف مظاہروں کو کچلنے کے لیے وحشیانہ کریک ڈاؤن کرتے رہے ہیں۔ اسسٹنس ایسوسی ایشن آف پولیٹیکل پریزنرز (اے اے پی پی) نامی ایک ادارے کا کہنا ہے کہ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 2,100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اے اے پی پی کا کہنا ہے کہ پیر کے روز سے پہلے، میانمار میں آخری عدالتی پھانسی 1980 کی دہائی کے اواخر میں ہوئی تھی۔گذشتہ ہفتے ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میانمار کی فوج پر جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگوں کا استعمال جنگی جرائم کے مترادف ہے۔محققین نے تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب میانمار کی ریاست کا دورہ کیا۔ وہاں انہیں ایسے معتبر شواہد ملے کہ فوج کی جانب سے چاول کے کھیتوں اور چرچ کے ارد گرد بھی بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ ان بارودی سرنگوں سے شہری زخمی اور ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ایمنسٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کی جانب سے اپنی ہی آبادی کے خلاف بارودی سرنگوں کے ظالمانہ اور گھناؤنے طریقے سے استعمال کرنے پر اس ملک کے خلاف کارروائی کرے۔مسلح افواج کی طرف سے فروری 2021 ء میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ملکی قیادت فوج کے ہاتھ میں ہے، جس کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے کی خبریں آتی رہی ہیں۔