مفلسوں، مجبوروں اور بیواؤں کی دل آزاری سے بچیں

روزِ محشرجواب دینا ہے؟؟
ایم شفیع میر/گول،رام بن
جب کو ئی آپ کیسامنے ہاتھ پھیلائے، آپ سے مدد مانگے، آپ کو اپنا مددگار سمجھے تو یقین مانئے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے آپکو ایک عظیم اور اہم موقعہ نصیب ہورہا ہے کہ آپ بار گاہ ِ خداوندی میں اپنے گناہوں ، کوتاہیوں، لغزشوں اور نافرمانیوں کا کچھ بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کریں۔یاد رہے اگر آپ نے اِس عظیم موقعے کو کھو دیا تو حقیقتاً آپ نے زندگی کے جینے کا مقصد کھو دیا ،اِس کے بعد آپ اک چلتی پھرتی زندہ لاش کی مانند ہیں جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یعنی انسان ہوکر بھی انسانی زندگی گزارنے کا موقعہ نصیب نہیں ہوتا۔ہمارے معاشرے میں یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم اکثر اوقات ایسے موقعوں پر تکبر، غرور اور انا کا شکار ہوجاتے ہیں اور یوں ہم گناہوں کی ایسی دلدل میں دھنس جاتے ہیں جس سے صرف اپنا نقصان نہیں کرتے بلکہ سماج کو اک ایسی ناقابل ِ رح سمت میں لیجانے کا کام کرتے ہیں جس سمت پر جاکر رسوائیوں اور ہلاکتوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ احقر نے اِس موضوع پر لکھنا اْس اِس لئے مناسب سمجھا کیونکہ اِس موضوع سے جڑی اک دردناک کہانی آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں جس سے ہم سب کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارا اصلی چہرہ کیا ہے اور ہماری اصل اوقات کیا ہے، یوں تو ظاہراًہم سب خود کو ہر لحاظ سے صاف شفاف اور پاکدامن شخصیت کے طور معاشرے میں پیش کرنے کی جستجو میں نظر آتے ہیں۔ ہمارے لباس مہنگے، ہمارے الفاظ معیاری، ہماری سوچ اعلیٰ، ہماری فکرمندی متاثرکن لیکن سچ مانیے اور حق جانئے تو یہ سب ہمارا اک ظاہری روپ ہے جب کہ عملی دنیا میں ہم ہر لحاذ سے خستہ حال ہیں، ہمارے لباس ناپاک، ہمارے الفاظ ناشائستہ، ہماری سوچ ناپاک، ہماری فکر مندی میں دوغلاپناور ہمارے ذہن زہر آلود ہیں۔ہمارے اِس دورَنگے اور دوغلے پن کی پول کھولنے کیلئے علاقہ گول کے سنگلدان ماولکوٹ کی رہنے والی رحمتہ نامی اک بیوہ خاتون کی داستان ِ الم کافی ہے جو معذوری حالت میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ، ہر در پر دستک دے کر انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن نہ تو انتظامیہ اِس معذور بیوہ خاتون کو انصاف دلانے کیلئے سنجیدگی برت رہی ہے اور نہ ہی ہمارے سماج کے ٹھیکیدار مجبور، لاچار اور ظلم و جبر کی شکار رحمتہ بیگم کوکسی قسم کی مدد کرنے میں سنجیدہ ہیں۔حد تو یہ ہے جو چند عناصر خود کو سماج سدھاریا سماج کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں وہ اِ س بیوہ خاتون کی مدد کرنے کیلئے بجائے موصوفہ کی اِس قدر دلاآزاری کے مرتکب ہورہے ہیں کہ انسانیت نام جیسی شے چْلو بھر پانی میں ڈوب جانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ہمارے نام نہاد سماج سدھار کچھ صاحبان اخلاقی طور اِس قدر گراوٹ کا شکار ہونگے کبھی سوچا بھی نہیں سکتا لیکن متاثرہ خاتون کی آب بیتی اور داستان ِ غم رْبرو سننے کے بعد یہ حقیقت ایک کھلی کتاب کی طرح دیکھنے کو مل جاتی ہے کہ سماج کا عام انسان جن لوگوں کو سماج سدھار سمجھے بیٹھے ہیں وہ حقیقتاً سماج کیلئے زہر ِ قاتل ہیں اور سماج میں پنپ رہی بے شرمی ، بد اخلاقی اور بدتمیزی کی جڑ یہی نام نہاد لیڈر اورسماج سدھار ہیں جو اخلاقی اور انسانی طور انتہا تک گرے ہوئے ہیں۔ رحمتہ بیگم کہتی ہے کہ چند برس قبل اْس کا سہاگ اجڑ گیا اور اپنی دو بچیوں کو لیکر زندگی کے اک مشکل دور میں بری طرح پھنس گئی ، اب اْسے آس تھی اْس کے اپنے اْس کی اور اْس کی دو معصوم بچیوں کی پرورش کریں گے اور اِس مشکل وقت میں اْس کے دْکھ درد میں شریک ہونگے لیکن رحمتہ بیگم کا یہ خیال اک گمان ثابت ہوا، ہر آنے والا دن رحمتہ بیگم کیلئے مصیبتوں کے پہاڑ لیکر آتا ہے۔ اِدھر سہاگ کیا اْجڑ گیا اْدھر رحمتہ کے دیور نے اْس کا جینا محال کردیا، اْس سے زمین جائداد چھینی گئی اْس کو تنگ طلب کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مصیبت کے یہ ایام رحمتہ بیگم اک کچے آشیانے میں جیسے تیسے بسر کر ہی رہی تھی لیکن دیور اْس آشیانے سے بھی رحمتہ بیگم کو محروم رکھنے پر بضد ہے، آئے روز نئے نئے حربوں سے رحمتہ بیگم کو ہراس کر رہا ہے۔ دیور کے اِس غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے سے تنگ آکر رحمت بیگم نے انتظامیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انتظامیہ نے عام درخواست کنندگان کی طرح رحمتہ بیگم کی شکایت پر بھی تحقیقات شروع کر دی،جبکہ متاثرہ خاتون معذور ہے اور روز روز دفاترکے چکر لگانا اْس کے بس کی بات نہیں، رحمتہ بیگم چلتی ہیں تو اْس کے پاؤں لڑکھڑاتے ہیں لیکن رحمت بیگم کے حوصلوں کو سلام ہے کہ ایسے حالات میں بھی انھوں نے حالات سے لڑنے اور اپنے حق کو حاصل کرنے کا جذبہ ٹھنڈا نہ پڑنے دیا ،وہ لڑکھڑاتے پاؤںسے اِس جنگ کو آج بھی بلند حوصلوں سے لڑ رہی ہے ، ایس ڈی ایم گول نے متاثرہ خاتون کی روداد کو سنااوریقین دہانی کراکرگھر بھیج دیاکہ ’’آپ کا مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے گا ، جو بھی کوئی شخص آپ کو ستا رہا ہے ،آپ کی زمین جائداد کو ہڑپنے کی کوشش کر رہا ہیاْس کے خلاف کارروائی کی جائی گی ‘‘اِدھر ایس ڈی ایم گول غیاث الحق کی یہ دریا دِلی اطمنان بخش ہے لیکن اْدھر متعلقہ پٹواری کا بیوہ خاتون کے اِس معاملے پر سرد مہر ی مظاہرہ افسوسناک ہے۔ متعلقہ پٹواری نے متاثرہخاتون کی معذوری کو نظر انداز کرکے اْسے پھر سے تحصیل صدر مقام جانے کی ڈیوٹی لگا دی جو کہ ہمارے سماج کے کھوکھلے پن کا کھلا ثبوت ہے۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ متعلقہ پٹواری فرائض منصبی کی انجام دہی سے ذرا اْوپر اٹھ کر سماج کے ایسے دبے کچلے لوگوں کے کام آتے۔یاد رہے اک ملازم کو اپنے فرائض انجام دینے کے عوض تنخواہ ملتی ہے لیکن بحیثیت انسان ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ سماج کے لاچار و مجبور لوگوں کی مدد سے ہماری آخرت سنور جاتی ہے۔اس لئے کبھی کبھار انسان کی کوشش رہنی چاہیے کہ انسانیت کو زندہ رکھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کیلئے بھی تھوڑا سا کام کیا جائے۔قابل ِ غور ہے اور انتہائی افسوسناک بھی کہ متاثرہ خاتون انتظامیہ کے سامنے انصاف کی بھیک مانگ کر خالی تو نہیں نکلی لیکن اْن بلند قامت مغرور اور تکبرسے ڈیزائن شدہ دروازوں سے ذلیل ہوکر نکالی گئی جن دروازوں پر’’سماج سدھار‘‘ کی تختیاں لکھی ہوتی ہیں۔ قابل ِ ذکر ہے اور اشد ضروری بھی کہ سماج کے ایسے گندے انڈوں کا ذکر کرنا چاہئیجن کی وجہ سے سماج گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ چند روز قبل متاثرہ خاتون کی اچانک ملاقات نصیب ہوئی، احقر اک چھوٹی سے دکان پر اپنے چند دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ ہم میں سے اک دوست متاثرہ خاتون کی کچھ مدد کر چکا تھا، خاتون نے اْس کو دیکھا اور اْسے بلایا، ساتھی نے جلدی سے متاثرہ خاتون کا ہاتھ تھاما اور اْسے دکان پر لے آیا اور ہم سب ساتھیوں سے کہا کہ اِس مجبور خاتون کی مدد کرو، اِس پر ظلم ہورہا ہے۔اتنے میں متاثرہ خاتون نے ہاتھ پھیلائے اور نم دیدہ آنکھوں سے چیخ چیخ کر ہمارے اْس ساتھی کو خوب دعائیں دینے لگی۔ ہم سب ساتھیوں نے خاتون سے اْن کی روداد جاننی چاہی تو وہ روتے ،بلکتے اور تڑپتتے بولی اْٹھی۔متاثرہ خاتون نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے سماج کی ایسی بھیانک تصویر ہمارے سامنے پیش کردی کہ ہم سب ساتھی شرم سے پانی پانی ہوگئے اور خود سے ہی سوال کرنے لگے کیا ہمارے سماج میں اخلاقی گراوٹ اِس حد تک پہنچی ہے کہ ہم اب بیواؤں ، مجبوروں اور لاچاروں کی مدد کرنا تو دور اْن کی عزت کرنے سے بھی قاصر ہیں ، کیا ہم ایسے ہی سماج میں رہنے والی مخلوق ہیں ؟؟جس سماج میں بیواؤں ،مجبوروں اور مفلسوں کیساتھ اِس قدر بد اخلاقی سے پیش آیا جاتا ہے۔اپنی روداد میں جس نام نہاد لیڈر کے غیر مہذب ، غیر اخلاقی اور ناشائستہ رویے کا استعمال کرنے والے لیڈر کانام متاثرہ خاتون نے ظاہر کیا اْس کا ذکر کئے بغیر خاتون کی ساری آپ سبھی قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہوں اِس اْمید کے ساتھ کہ ہم سب اک صحتمند اور باعزت سماج کی تکمیل کیلئے فکر مند اورمتحد ہو جائیں۔خاتون نے گدھ نما لیڈر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ اک دفعہ میں بے حد اْمید و آس لگائے اپنے ہی علاقہ سنگلدان کے مقامی لیڈر کے پاس گئی اور اْسے کہا کہ میں مصیبت میں مبتلا ہوں ،،مجبورہوں، مصیبت زدہ ہوں، لاچار ہوں،بیوہ ہوں،کوئیپرسان حال نہیں ہے اِس لئے میری کچھ مدد فرمائیے !اْس پر نام نہاد لیڈر اور سماج سدھار عناصر نے جو کچھ کہاوہ انتہائی غیر مہذب اور غیر اخلاقی تھا،خود کو سماج سدھار اور لیڈر کہلانے والے اْس شخص نے جواباً متاثرہ خاتون سے یہ کہا کہ’’ ہم بیواؤں کی مدد نہیں کرتے بلکہ اْن کی شادی کرتے ہیں‘‘۔رحمتہ بیگم کے مطابق جب میں نے اْس لیڈر کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے سنے تو میری پاؤں سے زمین کھسک گئی اور میں سوچوں کی دنیا میں کچھ دیر کیلئے غرق ہوئی اور خود کو کوسنے لگی کہ کیا ضرورت پڑی تھی ایسے بے حیا اور بد اخلاق انسان کے پاس آنے کی، میں نے ہمت جٹائی اور لڑکھڑاتے پاؤں باہر نکلی اور چند میٹر دور آکر بیٹھ گئی، میری سانسیں پھول رہی تھی ، رحمتہ بیگم نے آنسوؤں بہاتے ہوئے کہا کہ لیڈر موصوف کا یہ رویہ دیکھ کر میں انتہائی دْکھی ہوئی اور میں نے محسوس کیا یہ گدھ نما لیڈر تو میرے اْس ’دیور ‘سے بھی گرا ہوا ہے۔وہ تو مجھے سے میری زمین جائداد چھین رہا ہے لیکن اِس شخص جو خود کو لیڈر کہلاتا پھرتا ہے نے میری عزت ِ نفس پر ایسی ٹھیس پہنچا دی ، ایسا زخم دیا جو مرتے دم تک ہرا رہے گا۔ متاثرہ خاتون نے کہا میں نے گویا پہلی بار انسان کے روپ میں ’’درندہ ‘‘دیکھا تھا اور میں اب بہت ڈر چکی ہوں۔اب کسی سے مدد مانگنے میں بھی ڈر محسوس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں معذوری حالت میں خود ہی دفاترکے چکر کاٹنے پر مجبور ہوں۔میں نے خود کو ہی خود کا سہارا بنا دیا ہے کسی پر اعتبار اب گویا عزت کو نیلام کرنے کے مترادف لگ رہا ہے۔ افسوس ! افسوس! افسوس !! مجھے افسوس ہے کہ ہمیں اللہ نے ایسے رہبر عطا کئے جو ہماری عزتوں کو تار تار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا کرے اور عوام کو ایسے رہبروں کی رہبری سے محفوظ رکھے۔آمین!یاد رکھئے!! ایسے نام نہاد لیڈر اور سماج سدھار ’’سماج ‘‘کی بربادی میں مزائل کا کام کرتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ ایسے لیڈران کو پہچانیں،اِن کی چوڑی چکنی باتوں پر اِن کی حوصلہ افزائی سے باز رہیں، اِن کی اصلیت کو جانچیں، انہیں پرکھیں۔یہاں ناچیز ایس ڈی ایم گول غیاث الحق صاحب سے مودبانہ و مخلصانہ گزارش کرتا ہوں کہ متاثرہ خاتون کے مسئلے پر اک بار پھر سے نظر ثانی کی جائے جس طرح آپ نے پہلی دفعہ معاملے کو ہنگامی بنیاد پر سلجھانے کیلئے متاثرہ خاتون کو انصاف دلانے کی کوشش کر کے انسانیت کیباحیات ہونے کا ثبوت پیش کیا اِس میں مزید جان بھرنے کیلئے اک بار پھر سے متاثرہ خاتون کی مدد فرمایئے اور اللہ کے ہاں اپنے سرخروئی کا سامان پیدا کریں، ان شا اللہ !رب العزت آپ کو اِس کے عوض عظیم انعام سے نوازیں گے۔ آخر میںسنگلدان کے اْن تمام لیڈران کے گوش گزار یہ بات کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے اپنے علاقے میں مجبوروں ، مفلسوں اور بیواؤں کی اِس قدر تذلیل آپ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور آپ کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ آپ سے میرا سوال ہے آپ اگر ووٹ مانگنے کیلئے اِن غریبوں کے گھر گھر جاتے ہیں تو آپ کو مصیبت کے وقت اِن لوگوں کے ساتھ ہو لینے میں کونسی توہین ہوتی ہے؟؟کیا آپ کی حیثیت اور تشخص میں کسی قسم کا زک پہنچتا ہے ؟؟ کیاآپ کو غریبوں کی مدد کرنا اور اْن کے ساتھ چل کر اْن کے مسائل کو حل کرنے میں شرم آتی ہے ؟؟کیا آپ کو مجبوروں ، مفلسوں اور بیواؤں کے مسائل کو نظر انداز کرنے اور اِن کی تذلیل کرنے میں فخر محسوس ہوتا ہے ؟اگر ایسا ہے تو برائے مہربانی آئندہ کیلئے سماج سدھار اور لیڈری کیفلسفے سنانے اور سمجھانے سے گریز کیجئے گا کیونکہ اِ س غیر اخلاقی اور انسانیت سوز رویے سے ’’لیڈری ‘‘جیسا لفظ استعمال کرنا گویا لیڈری کی توہین ہے اور کسی غیر مہذب شخص کیلئے کسی معیاری لفظ کا غیر مناسب استعمال بھی کسی المیہ اور سانحہ سے کم نہیں ہوتا ہے۔خیر اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارے سماج میں ایسے بھی لیڈر موجودہ مجبوروں اور لاچاروں کی تذلیل کو ہی لیڈری سمجھتے ہیں ، مجھے اْمید ہے کہ یہ تحریر اْس بد اخلاق لیڈر تک ضرور پہنچے گی اور وہ آئندہ کیلئے اپنی زبان پر لگام کسے گا اور اگر انسان کا بچہ ہوگا تو کھل کر سامنے آئے گا اور متاثرہ خاتون کے پاؤں پر جھک کر اْس سیمعافی بھی مانگے گا۔

روزِ محشرجواب دینا ہے؟؟
ایم شفیع میر/گول،رام بن
جب کو ئی آپ کیسامنے ہاتھ پھیلائے، آپ سے مدد مانگے، آپ کو اپنا مددگار سمجھے تو یقین مانئے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے آپکو ایک عظیم اور اہم موقعہ نصیب ہورہا ہے کہ آپ بار گاہ ِ خداوندی میں اپنے گناہوں ، کوتاہیوں، لغزشوں اور نافرمانیوں کا کچھ بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کریں۔یاد رہے اگر آپ نے اِس عظیم موقعے کو کھو دیا تو حقیقتاً آپ نے زندگی کے جینے کا مقصد کھو دیا ،اِس کے بعد آپ اک چلتی پھرتی زندہ لاش کی مانند ہیں جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یعنی انسان ہوکر بھی انسانی زندگی گزارنے کا موقعہ نصیب نہیں ہوتا۔ہمارے معاشرے میں یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم اکثر اوقات ایسے موقعوں پر تکبر، غرور اور انا کا شکار ہوجاتے ہیں اور یوں ہم گناہوں کی ایسی دلدل میں دھنس جاتے ہیں جس سے صرف اپنا نقصان نہیں کرتے بلکہ سماج کو اک ایسی ناقابل ِ رحم سمت میں لیجانے کا کام کرتے ہیں جس سمت پر جاکر رسوائیوں اور ہلاکتوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ احقر نے اِس موضوع پر لکھنا اْس اِس لئے مناسب سمجھا کیونکہ اِس موضوع سے جڑی اک دردناک کہانی آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں جس سے ہم سب کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارا اصلی چہرہ کیا ہے اور ہماری اصل اوقات کیا ہے، یوں تو ظاہراًہم سب خود کو ہر لحاظ سے صاف شفاف اور پاکدامن شخصیت کے طور معاشرے میں پیش کرنے کی جستجو میں نظر آتے ہیں۔ ہمارے لباس مہنگے، ہمارے الفاظ معیاری، ہماری سوچ اعلیٰ، ہماری فکرمندی متاثرکن لیکن سچ مانیے اور حق جانئے تو یہ سب ہمارا اک ظاہری روپ ہے جب کہ عملی دنیا میں ہم ہر لحاذ سے خستہ حال ہیں، ہمارے لباس ناپاک، ہمارے الفاظ ناشائستہ، ہماری سوچ ناپاک، ہماری فکر مندی میں دوغلاپناور ہمارے ذہن زہر آلود ہیں۔ہمارے اِس دورَنگے اور دوغلے پن کی پول کھولنے کیلئے علاقہ گول کے سنگلدان ماولکوٹ کی رہنے والی رحمتہ نامی اک بیوہ خاتون کی داستان ِ الم کافی ہے جو معذوری حالت میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ، ہر در پر دستک دے کر انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن نہ تو انتظامیہ اِس معذور بیوہ خاتون کو انصاف دلانے کیلئے سنجیدگی برت رہی ہے اور نہ ہی ہمارے سماج کے ٹھیکیدار مجبور، لاچار اور ظلم و جبر کی شکار رحمتہ بیگم کوکسی قسم کی مدد کرنے میں سنجیدہ ہیں۔حد تو یہ ہے جو چند عناصر خود کو سماج سدھاریا سماج کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں وہ اِ س بیوہ خاتون کی مدد کرنے کیلئے بجائے موصوفہ کی اِس قدر دلاآزاری کے مرتکب ہورہے ہیں کہ انسانیت نام جیسی شے چْلو بھر پانی میں ڈوب جانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ہمارے نام نہاد سماج سدھار کچھ صاحبان اخلاقی طور اِس قدر گراوٹ کا شکار ہونگے کبھی سوچا بھی نہیں سکتا لیکن متاثرہ خاتون کی آب بیتی اور داستان ِ غم رْبرو سننے کے بعد یہ حقیقت ایک کھلی کتاب کی طرح دیکھنے کو مل جاتی ہے کہ سماج کا عام انسان جن لوگوں کو سماج سدھار سمجھے بیٹھے ہیں وہ حقیقتاً سماج کیلئے زہر ِ قاتل ہیں اور سماج میں پنپ رہی بے شرمی ، بد اخلاقی اور بدتمیزی کی جڑ یہی نام نہاد لیڈر اورسماج سدھار ہیں جو اخلاقی اور انسانی طور انتہا تک گرے ہوئے ہیں۔ رحمتہ بیگم کہتی ہے کہ چند برس قبل اْس کا سہاگ اجڑ گیا اور اپنی دو بچیوں کو لیکر زندگی کے اک مشکل دور میں بری طرح پھنس گئی ، اب اْسے آس تھی اْس کے اپنے اْس کی اور اْس کی دو معصوم بچیوں کی پرورش کریں گے اور اِس مشکل وقت میں اْس کے دْکھ درد میں شریک ہونگے لیکن رحمتہ بیگم کا یہ خیال اک گمان ثابت ہوا، ہر آنے والا دن رحمتہ بیگم کیلئے مصیبتوں کے پہاڑ لیکر آتا ہے۔ اِدھر سہاگ کیا اْجڑ گیا اْدھر رحمتہ کے دیور نے اْس کا جینا محال کردیا، اْس سے زمین جائداد چھینی گئی اْس کو تنگ طلب کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مصیبت کے یہ ایام رحمتہ بیگم اک کچے آشیانے میں جیسے تیسے بسر کر ہی رہی تھی لیکن دیور اْس آشیانے سے بھی رحمتہ بیگم کو محروم رکھنے پر بضد ہے، آئے روز نئے نئے حربوں سے رحمتہ بیگم کو ہراس کر رہا ہے۔ دیور کے اِس غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے سے تنگ آکر رحمت بیگم نے انتظامیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انتظامیہ نے عام درخواست کنندگان کی طرح رحمتہ بیگم کی شکایت پر بھی تحقیقات شروع کر دی،جبکہ متاثرہ خاتون معذور ہے اور روز روز دفاترکے چکر لگانا اْس کے بس کی بات نہیں، رحمتہ بیگم چلتی ہیں تو اْس کے پاؤں لڑکھڑاتے ہیں لیکن رحمت بیگم کے حوصلوں کو سلام ہے کہ ایسے حالات میں بھی انھوں نے حالات سے لڑنے اور اپنے حق کو حاصل کرنے کا جذبہ ٹھنڈا نہ پڑنے دیا ،وہ لڑکھڑاتے پاؤںسے اِس جنگ کو آج بھی بلند حوصلوں سے لڑ رہی ہے ، ایس ڈی ایم گول نے متاثرہ خاتون کی روداد کو سنااوریقین دہانی کراکرگھر بھیج دیاکہ ’’آپ کا مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے گا ، جو بھی کوئی شخص آپ کو ستا رہا ہے ،آپ کی زمین جائداد کو ہڑپنے کی کوشش کر رہا ہیاْس کے خلاف کارروائی کی جائی گی ‘‘اِدھر ایس ڈی ایم گول غیاث الحق کی یہ دریا دِلی اطمنان بخش ہے لیکن اْدھر متعلقہ پٹواری کا بیوہ خاتون کے اِس معاملے پر سرد مہر ی مظاہرہ افسوسناک ہے۔ متعلقہ پٹواری نے متاثرہخاتون کی معذوری کو نظر انداز کرکے اْسے پھر سے تحصیل صدر مقام جانے کی ڈیوٹی لگا دی جو کہ ہمارے سماج کے کھوکھلے پن کا کھلا ثبوت ہے۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ متعلقہ پٹواری فرائض منصبی کی انجام دہی سے ذرا اْوپر اٹھ کر سماج کے ایسے دبے کچلے لوگوں کے کام آتے۔یاد رہے اک ملازم کو اپنے فرائض انجام دینے کے عوض تنخواہ ملتی ہے لیکن بحیثیت انسان ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ سماج کے لاچار و مجبور لوگوں کی مدد سے ہماری آخرت سنور جاتی ہے۔اس لئے کبھی کبھار انسان کی کوشش رہنی چاہیے کہ انسانیت کو زندہ رکھنے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کیلئے بھی تھوڑا سا کام کیا جائے۔قابل ِ غور ہے اور انتہائی افسوسناک بھی کہ متاثرہ خاتون انتظامیہ کے سامنے انصاف کی بھیک مانگ کر خالی تو نہیں نکلی لیکن اْن بلند قامت مغرور اور تکبرسے ڈیزائن شدہ دروازوں سے ذلیل ہوکر نکالی گئی جن دروازوں پر’’سماج سدھار‘‘ کی تختیاں لکھی ہوتی ہیں۔ قابل ِ ذکر ہے اور اشد ضروری بھی کہ سماج کے ایسے گندے انڈوں کا ذکر کرنا چاہئیجن کی وجہ سے سماج گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ چند روز قبل متاثرہ خاتون کی اچانک ملاقات نصیب ہوئی، احقر اک چھوٹی سے دکان پر اپنے چند دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ ہم میں سے اک دوست متاثرہ خاتون کی کچھ مدد کر چکا تھا، خاتون نے اْس کو دیکھا اور اْسے بلایا، ساتھی نے جلدی سے متاثرہ خاتون کا ہاتھ تھاما اور اْسے دکان پر لے آیا اور ہم سب ساتھیوں سے کہا کہ اِس مجبور خاتون کی مدد کرو، اِس پر ظلم ہورہا ہے۔اتنے میں متاثرہ خاتون نے ہاتھ پھیلائے اور نم دیدہ آنکھوں سے چیخ چیخ کر ہمارے اْس ساتھی کو خوب دعائیں دینے لگی۔ ہم سب ساتھیوں نے خاتون سے اْن کی روداد جاننی چاہی تو وہ روتے ،بلکتے اور تڑپتتے بولی اْٹھی۔متاثرہ خاتون نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے سماج کی ایسی بھیانک تصویر ہمارے سامنے پیش کردی کہ ہم سب ساتھی شرم سے پانی پانی ہوگئے اور خود سے ہی سوال کرنے لگے کیا ہمارے سماج میں اخلاقی گراوٹ اِس حد تک پہنچی ہے کہ ہم اب بیواؤں ، مجبوروں اور لاچاروں کی مدد کرنا تو دور اْن کی عزت کرنے سے بھی قاصر ہیں ، کیا ہم ایسے ہی سماج میں رہنے والی مخلوق ہیں ؟؟جس سماج میں بیواؤں ،مجبوروں اور مفلسوں کیساتھ اِس قدر بد اخلاقی سے پیش آیا جاتا ہے۔اپنی روداد میں جس نام نہاد لیڈر کے غیر مہذب ، غیر اخلاقی اور ناشائستہ رویے کا استعمال کرنے والے لیڈر کانام متاثرہ خاتون نے ظاہر کیا اْس کا ذکر کئے بغیر خاتون کی ساری آپ سبھی قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہوں اِس اْمید کے ساتھ کہ ہم سب اک صحتمند اور باعزت سماج کی تکمیل کیلئے فکر مند اورمتحد ہو جائیں۔خاتون نے گدھ نما لیڈر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ اک دفعہ میں بے حد اْمید و آس لگائے اپنے ہی علاقہ سنگلدان کے مقامی لیڈر کے پاس گئی اور اْسے کہا کہ میں مصیبت میں مبتلا ہوں ،،مجبورہوں، مصیبت زدہ ہوں، لاچار ہوں،بیوہ ہوں،کوئیپرسان حال نہیں ہے اِس لئے میری کچھ مدد فرمائیے !اْس پر نام نہاد لیڈر اور سماج سدھار عناصر نے جو کچھ کہاوہ انتہائی غیر مہذب اور غیر اخلاقی تھا،خود کو سماج سدھار اور لیڈر کہلانے والے اْس شخص نے جواباً متاثرہ خاتون سے یہ کہا کہ’’ ہم بیواؤں کی مدد نہیں کرتے بلکہ اْن کی شادی کرتے ہیں‘‘۔رحمتہ بیگم کے مطابق جب میں نے اْس لیڈر کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے سنے تو میری پاؤں سے زمین کھسک گئی اور میں سوچوں کی دنیا میں کچھ دیر کیلئے غرق ہوئی اور خود کو کوسنے لگی کہ کیا ضرورت پڑی تھی ایسے بے حیا اور بد اخلاق انسان کے پاس آنے کی، میں نے ہمت جٹائی اور لڑکھڑاتے پاؤں باہر نکلی اور چند میٹر دور آکر بیٹھ گئی، میری سانسیں پھول رہی تھی ، رحمتہ بیگم نے آنسوؤں بہاتے ہوئے کہا کہ لیڈر موصوف کا یہ رویہ دیکھ کر میں انتہائی دْکھی ہوئی اور میں نے محسوس کیا یہ گدھ نما لیڈر تو میرے اْس ’دیور ‘سے بھی گرا ہوا ہے۔وہ تو مجھے سے میری زمین جائداد چھین رہا ہے لیکن اِس شخص جو خود کو لیڈر کہلاتا پھرتا ہے نے میری عزت ِ نفس پر ایسی ٹھیس پہنچا دی ، ایسا زخم دیا جو مرتے دم تک ہرا رہے گا۔ متاثرہ خاتون نے کہا میں نے گویا پہلی بار انسان کے روپ میں ’’درندہ ‘‘دیکھا تھا اور میں اب بہت ڈر چکی ہوں۔اب کسی سے مدد مانگنے میں بھی ڈر محسوس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں معذوری حالت میں خود ہی دفاترکے چکر کاٹنے پر مجبور ہوں۔میں نے خود کو ہی خود کا سہارا بنا دیا ہے کسی پر اعتبار اب گویا عزت کو نیلام کرنے کے مترادف لگ رہا ہے۔ افسوس ! افسوس! افسوس !! مجھے افسوس ہے کہ ہمیں اللہ نے ایسے رہبر عطا کئے جو ہماری عزتوں کو تار تار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت عطا کرے اور عوام کو ایسے رہبروں کی رہبری سے محفوظ رکھے۔آمین!یاد رکھئے!! ایسے نام نہاد لیڈر اور سماج سدھار ’’سماج ‘‘کی بربادی میں مزائل کا کام کرتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ ایسے لیڈران کو پہچانیں،اِن کی چوڑی چکنی باتوں پر اِن کی حوصلہ افزائی سے باز رہیں، اِن کی اصلیت کو جانچیں، انہیں پرکھیں۔یہاں ناچیز ایس ڈی ایم گول غیاث الحق صاحب سے مودبانہ و مخلصانہ گزارش کرتا ہوں کہ متاثرہ خاتون کے مسئلے پر اک بار پھر سے نظر ثانی کی جائے جس طرح آپ نے پہلی دفعہ معاملے کو ہنگامی بنیاد پر سلجھانے کیلئے متاثرہ خاتون کو انصاف دلانے کی کوشش کر کے انسانیت کیباحیات ہونے کا ثبوت پیش کیا اِس میں مزید جان بھرنے کیلئے اک بار پھر سے متاثرہ خاتون کی مدد فرمایئے اور اللہ کے ہاں اپنے سرخروئی کا سامان پیدا کریں، ان شا اللہ !رب العزت آپ کو اِس کے عوض عظیم انعام سے نوازیں گے۔ آخر میںسنگلدان کے اْن تمام لیڈران کے گوش گزار یہ بات کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے اپنے علاقے میں مجبوروں ، مفلسوں اور بیواؤں کی اِس قدر تذلیل آپ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور آپ کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ آپ سے میرا سوال ہے آپ اگر ووٹ مانگنے کیلئے اِن غریبوں کے گھر گھر جاتے ہیں تو آپ کو مصیبت کے وقت اِن لوگوں کے ساتھ ہو لینے میں کونسی توہین ہوتی ہے؟؟کیا آپ کی حیثیت اور تشخص میں کسی قسم کا زک پہنچتا ہے ؟؟ کیاآپ کو غریبوں کی مدد کرنا اور اْن کے ساتھ چل کر اْن کے مسائل کو حل کرنے میں شرم آتی ہے ؟؟کیا آپ کو مجبوروں ، مفلسوں اور بیواؤں کے مسائل کو نظر انداز کرنے اور اِن کی تذلیل کرنے میں فخر محسوس ہوتا ہے ؟اگر ایسا ہے تو برائے مہربانی آئندہ کیلئے سماج سدھار اور لیڈری کیفلسفے سنانے اور سمجھانے سے گریز کیجئے گا کیونکہ اِ س غیر اخلاقی اور انسانیت سوز رویے سے ’’لیڈری ‘‘جیسا لفظ استعمال کرنا گویا لیڈری کی توہین ہے اور کسی غیر مہذب شخص کیلئے کسی معیاری لفظ کا غیر مناسب استعمال بھی کسی المیہ اور سانحہ سے کم نہیں ہوتا ہے۔خیر اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارے سماج میں ایسے بھی لیڈر موجودہ مجبوروں اور لاچاروں کی تذلیل کو ہی لیڈری سمجھتے ہیں ، مجھے اْمید ہے کہ یہ تحریر اْس بد اخلاق لیڈر تک ضرور پہنچے گی اور وہ آئندہ کیلئے اپنی زبان پر لگام کسے گا اور اگر انسان کا بچہ ہوگا تو کھل کر سامنے آئے گا اور متاثرہ خاتون کے پاؤں پر جھک کر اْس سیمعافی بھی مانگے گا۔

Related Articles