لندن کی مارکیٹوں میں فروٹ کا ایک دانا 160 پاؤنڈ کا کیوں بک رہا ہے؟

برازیلیا/ لندن،فروری۔اوپر دکھائی دینے والی تصویر بی بی سی کی رپورٹر رکارڈو سینرا نے ٹوئٹر پر شیئر کی تو یہ ان کے آبائی ملک برازیل میں یہ وائرل ہو گئی اور اسے ایک لاکھ بار شیئر کیا گیا۔ یہ جیک فروٹ لندن میں پھلوں اور سبزیوں کی سب سے بڑی اور قدیم ترین مارکیٹ بوروغ میں 160 پاؤنڈ میں فروخت ہو رہا ہے۔نامہ نگار کی جانب سے شیئر کی جانے والی فروٹ کی تصویر پر اس کی قیمت کے ٹیگ کو دیکھ کر ٹوئٹر صارفین تو دنگ رہ گئے اور بہت سے ایسے تھے جنھوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ وہ اس پھل کو بیچ کر لکھ پتی بننے کے لیے اڑ کر لندن جائیں گے۔وجہ یہ ہے کہ برازیل کے بہت سے علاقوں میں یہی تازہ جیک فروٹس ایک پاؤنڈ سے بھی کم ہے۔ اسی طرح یہ بہت سے گرم مرطوب ممالک میں سستے داموں مل جاتا ہے۔بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں لوگ اس پھل کو بنا پیسے دیے مفت میں ہی درختوں سے اتار لیتے ہیں لیکن کم ازکم برازیل میں زیادہ تر تو یہ پھل گلیوں میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔تو پھر کسی ایک پھل کی اتنی زیادہ قیمت کس چیز کی وضاحت کرتی ہے جسے کچھ مقامی صارفین نہیں سمجھتے اور حالیہ عرصے میں اس کی مانگ بین الاقوامی سطح پر بڑھی کیوں ہے؟سب سے پہلے بنیادی اصول کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ کسی چیز کی فروخت اس کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ اصول ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے۔اسٹینسیا داس فروٹاس نامی پھلوں کے باغ کی انتظامی سربراہ سبرینا سارتورا نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ’حتیٰ کہ برازیل میں بھی جیک فروٹ کی قیمت ایک جیسی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی جگہیں ہیں جہاں اسے درخت سے مفت میں بھی اتار سکتے ہیں اور ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں یہ بہت ہی مہنگے داموں میں فروخت ہوتا ہے۔‘اس باغ میں جو کہ برازیل کی ریاست ساؤ پولو میں موجود ہے میں، کل 3000 فروٹ کی اقسام اگائی جاتی ہیں۔اور اسی طرح جیک فروٹ کو کمرشل بنیادوں پر ٹھنڈے ممالک میں اگایا ہی نہیں جا سکتا اور ان ممالک میں برطاینہ بھی شامل ہے۔تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ بطور خاص جیک فروٹ کی بین الاقوامی سطح پر تجارت بہت پیچیدہ ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں اس کے جلد خراب ہو جانے کی خصوصیت، صرف خاص موسم میں میسر ہونا اور اس کا بہت زیادہ حجم بتائی جاتی ہیں۔سبرینا سارتورا کہتی ہیں کہ جیک فروٹ بہت بھاری ہوتا ہے یہ بہت جلد ہی پک جاتا ہے اس کی ایک مخصوص مہک ہوتی ہے جو ہر کسی کو بھاتی نہیں ہے۔ایشیا سے تعلق رکھنے والے اس پھل کا وزن چالیس کلو تک چلا جاتا ہے، یہ بہت ہی جلد خراب ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے مارکیٹ میں اسے قابل فروخت حالت میں رکھنے کی مدت محدود ہوتی ہے۔جن ممالک میں جیک فروٹ اگایا جاتا ہے وہاں اسے زیادہ مرغوب نہیں دیکھا گیا۔ ترقی پزیر ممالک میں جہاں لوگ سبزی زیادہ کھاتے ہیں وہاں اسے گوشت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ جب اس پھل کو پکائیں تو اس کی ساخت بیف یا سور کے گوشت کی مانند ہوتی ہے۔ اس وجہ یہ ہے کہ یہ گوشت کے متبادل خوراکوں میں شامل ہے جن میں یہ ٹوفو، کوران اور یہ گلوٹن فری ہے۔صرف برطانیہ میں ہی سبزی خوروں کی تعداد اندازاً پینتیس لاکھ ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ جب جیک فروٹ بہت زیادہ پک جاتا ہے اور یہ عمل ہوتا بھی تیز ہے، تو اس کا ذائقہ میٹھا ہو جاتا ہے اور پھر اسے فقط میٹھے میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔اب اس کے صارفین کے لیے دستیابی میں آسان متبادل یہ ہے کہ وہ اسے کین میں خریدیں۔برطانیہ کی سپر مارکیٹس میں کین میں موجود جیک فروٹ کی اوسطً قیمت چار ڈالر ہے لیکن اسے استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا ذائقہ تازہ فروٹ جیسا نہیں رہتا۔جیک فروٹ سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے جو اس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کو مشکل بناتا ہے اور پھر اس کی کاشت بھی موسمی ہوتی ہے۔ اس کے بڑے وزن اور سائز اور غیر ہمورا ہیت کی وجہ سے اس کو پیک کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔دیگر فروٹس کی طرح اس کے لیے مخصوص سائز کے باکس نہیں بنائے جا سکتے۔ پھر ایسا کوئی سائنسی طریقہ بھی نہیں کہ اس کی بظاہر شکل کو دیکھ کر بتایا جا سکے کہ یہ پھل اچھی حالت میں ہے۔جیک فروٹ بنگلہ دیش اور سری لنکا کا قومی پھل ہے۔ اسے پیدا کرنے والے اور اس کو برآمد کرنے والے ممالک جن میں زیادہ تر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں، وہاں مارکیٹنگ چین نہیں یعنی کوئی نظام موجود نہیں ہے، نہ ہی اس کے پیدوار کے بعد محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ ہے۔ اس کی وجہ سے اندازہ یہ ہے کہ یہ پھل 70 فیصد تک تو ضائع ہی ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر انڈیا میں جیک فروٹ کوئی پسندیدہ پھل نہیں سمجھا جاتا ہے اور دیہی علاقوں میں اسے غریب آدمی کا پھل سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بہت سے ماہرین یہ کہتے ہیں اگرچہ جیک فروٹ تیزی سے مشہور ہو رہا ہے لیکن پھر لاعلمی کی وجہ سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اسے کبھی چکھا نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ اس پھل کے لیے کیا کیا کھانے کی ترکیبیں موجود ہیں۔نیدر لینڈ میں کھٹے فروٹس کی درآمد کرنے والے فیبریکو ٹوریس کی کمپنی کا نام ٹورس ٹراپیکل بی وی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا کے بعد اس پھل کو لانے کے لیے فضائی سروسز نے کرائے بھی بڑھائے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایشیا پیسیفک اور جنوبی امریکہ سے یورپ تک بہت سے خطوں میں فروٹس مسافر بردار طیاروں میں لائے جاتے ہیں۔ اب ائیر لائنز اپنی کارگو میں اہم ضرورت کی اشیا کو جگہ دینے کی تلاش میں ہیں۔ جیک فروٹ جلد خراب ہو جاتا ہے اور اسے جگہ چاہیے ہوتی ہے اس لیے اس کا بڑی مقدار میں درآمد کرنا اہم نہیں۔ اس سب کی وجہ سے اس کی حتمی قیمت بڑھ جاتی ہے۔تمام رکاوٹوں کے باوجود حالیہ تحقیقات میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں جیک فروٹ کی آمد بڑھ رہی ہے۔نڈسٹری اے آر سی نامی کنسلٹنسی کے اندازے کے مطابق سنہ 2026 تک اس کی مارکیٹ 359 اعشاریہ ایک ملین تک بہنچ جائے گی۔ اس تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ سنہ 2021 سے 2026 کے درمیان اس کا سالانہ ریٹ تین اعشاریہ تین فیصد بڑھنے کا اندازہ ہے۔سنہ 2020 میں ایشیائی خطے میں جیک فروٹ مارکیٹ کا سب سے بڑا حصہ تھا جو کہ 37 فیصد بتایا گیا ہے۔ یورپ میں یہ 23 فیصد تک پہنچا اسی طرح شمالی امریکہ میں 20 فیصد اور دیگر دنیا کے ممالک میں 12 فیصد اور جنوبی امریکہ میں مارکیٹ میں آٹھ فیصد تک تھا۔ مزید شواہد یہ بتاتے ہیں کہ برازیل کے لوگ بطور خاص اس پھل کو اہمیت نہیں دیتے۔

Related Articles