عرب حکمراں امریکی صدر کا فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں؟

واشنگٹن،مارچ۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے حالیہ ہفتوں میں بات کرانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ تو کیا بائیڈن انتظامیہ میں ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔ایک ایسے وقت جب امریکہ یوکرین کے حوالے سے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہی تیل کی قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کے لیے بھی جد و جہد کر رہا ہے، بعض عرب ممالک اس سے بات تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔معروف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے امریکی انتظامیہ کے بعض سینیئر حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ وائٹ ہاؤس حالیہ ہفتوں میں صدر جو بائیڈن، سعودی عرب کے عملاً رہنما ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے رہنما شیخ محمد بن زائد النہیان سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے تاہم اسے ابھی تک اس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔اخبار کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے اس موقع پر امریکی صدر سے فون پر بات کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ روس پر پابندیوں اور جنگ کے سبب غیر یقینی صورت حال کے پس منظر میں تیل کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور امریکی صدر شاید اسی حوالے سے عرب ممالک کے رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے مشرق وسطیٰ اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد بن زید النہیان، دونوں سے ہی بات چیت کی درخواست کی تھی تاہم جواب ملا کہ وہ جو بائیڈن سے گفت و شنید کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ایک امریکی اہلکار نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور بائیڈن کے درمیان بات کرنے کے منصوبے کے بارے میں کہا، ” ایک فون کال کی کچھ توقع تھی، تاہم ایسا ہو نہیں پا یا۔ یہ (سعودی عرب کے تیل کی) ٹونٹی کو آن کرنے کے بارے میں تھی۔” یعنی اس مشکل وقت میں وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کر سکے تاکہ قیمتوں پر قابو پا یا جا سکے۔حیران کن بات یہ ہے کہ حال ہی میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا تھا کہ بائیڈن اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان جلد بات چیت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اور نہ ہی امریکی صدر کے ریاض کے دورے پر جانے کا کوئی منصوبہ ہے۔مسٹر بائیڈن نے نو فروری کو ولی عہد محمد بن سلمان کے 86 سالہ والد شاہ سلمان سے بات کی تھی اور تب دونوں نے اپنے ملکوں کی دیرینہ شراکت داری کا اعادہ کیا تھا۔سعودی عرب کی جانب سے اس حوالے سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے تاہم وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق متحدہ عرب امارات کی وزارت نے کہا ہے کہ مسٹر بائیڈن اور شیخ محمد کے درمیان فون کال کو دوبارہ شیڈول کیا جائے گا۔وائٹ ہاؤس نے مشرق وسطیٰ کے ان دو اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو درست کرنے کے لیے کام کیا ہے جس کی اسے فی الوقت کافی ضرورت ہے۔ تیل کی قیمتیں گزشتہ تقریباً 14 سالوں میں پہلی بار 130 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات صرف دو ایسے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک ہیں جو لاکھوں بیرل مزید تیل پمپ کر سکتے ہیں اور اگر یہ دونوں ایسا کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ قیمتیں مستحکم ہو سکیں۔بائیڈن انتظامیہ کے دوران خلیجی خطے سے متعلق پالیسیوں سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔ صدر جو بائیڈن انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے سعودی عرب پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں جس سے وہ کافی ناراض ہے۔اپنی صدارتی مہم کے دوران، بائیڈن نے سعودی عرب کو ایک خاندانی ریاست قرار دیا تھا اور یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ سعودی عرب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ”قیمت ادا کرے گا۔” اس کے برعکس سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن میں جاری جنگ اور اس کے سویلین نیوکلیئر پروگرام میں امریکہ اس کی مزید مدد کرے۔ امریکہ میں ولی عہد محمد بن سلمان پر کیسز درج ہیں اور وہ اس سلسلے میں قانونی استثنیٰ کے لیے بھی بائیڈن انتظامیہ کی مدد کا خواہاں ہے۔ولی عہد کو امریکہ میں مقدمات کا سامنا ہے، جس میں 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی عرب کے نقاد جمال خاشقجی کا قتل بھی شامل ہے۔متحدہ عرب امارات بھی اس حوالے سے بعض سعودی خدشات کا حامی ہے۔ یمن کے ایران نواز حوثی عسکریت پسندوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے خلاف حالیہ میزائل حملوں پر جس انداز سے امریکہ نے محتاط رد عمل پیش کیا اسے اس پر بھی تشویش ہے۔

 

Related Articles