صدر ایردوان کا دورۂ متحدہ عرب امارات: ’خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے‘

دبئی،فروری۔ترکی کے صدر طیب ایردوان متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ ان کے اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ ایران سے متعلق دونوں ممالک کے مشترکہ تحفظات تعلقات کی بہتری کے لیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے کے آغاز پر صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد برسوں سے جاری کشیدگی کو دور کرنا ہے۔ترکی ماضی میں مصر کی اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمین کی حمایت کرنے کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں تنہائی کا شکار رہا ہے اور ترکی کی اخوان المسلمین کے لیے حمایت کو مشرقِ وسطی میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وائس آف امریکہ کے لیے ڈوریئن جونز کی رپورٹ کے مطابق استنبول کی قادر ہاس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد سولی اوزل کا کہنا ہے کہ صدر ایردوان کا حالیہ دورہ خطے میں نئی صف بندی کی کوششوں کا حصہ ہے جس میں ایران سے متعلق دونوں ممالک کے مشترکہ تحفظات کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ترکی نے بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کے لیے کئی ممالک سے روابط میں بہتری کا ہدف متعین کیا ہے۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔ دونوں ممالک کا مغربی ممالک کے ساتھ مشترکہ مفاد ہے کیوں کہ ایران کے اثرورسوخ میں آج جتنا اضافہ ہوا ہے ایسا اس سے پہلے نہیں تھا۔ان کے مطابق ققفاز سے شام تک ترکی اور ایران کی مسابقت میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ہفتے ترکی کے حامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ ترکی اور اسرائیل کے انٹیلی جنس اداروں کی مشترکہ کارروائی میں کئی مبینہ ایرانی ایجنٹس کو ترکی سے گرفتار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ایجنٹس ایک ترک نڑاد اسرائیلی بزنس مین کے قتل کی سازش کر رہے تھے۔یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران نے ایک ہفتے تک ترکی کے لیے قدرتی گیس کی سپلائی بند کردی تھی اور اس کے باعث ترکی کی صنعتوں کو بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ترکی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس، آذر بائیجان اور ایران پر انحصار کرتا ہے۔ ترکی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2021 کے ابتدائی دس ماہ میں ترکی کی گیس کی ضروریات کا 16 فی صد ایران سے درآمد کیا گیا تھا۔ایران نے 20 جنوری کو ترکی کے لیے گیس کی برآمدات معطل کردی تھیں اور اس کی وزارتِ تیل نے بتایا تھا کہ ترکی میں گیس اسٹیشن میں ہونے والی لیکیج کی وجہ سے سپلائی روکی گئی تھی۔ بعدازاں ایران نے گیس کی فراہمی بحال کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ترک حکام کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے فراہم کی گئی گیس کی مقدار اور پریشر پہلے سے کم ہے۔یورپین کونسل کی سینیئر فیلو اصلی آئدنتاشباش کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے ا ترکی کے لیے گیس بند کرنے کے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بظاہر گیس کی سپلائی روکنے کے لیے تیکنیکی وجوہ یا اپنی ضروریات پوری کرنا بتایا جاتا ہے لیکن گیس کی بندش کا فیصلہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے بعد سامنے آیا تھا۔ایران اور روس شام میں قائم حکومت کے حامی ہیں جب کہ ترکی باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس سے قبل روس نے یوکرین کو ڈرون فروخت کرنے پر ترکی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر تحفظات سے متعلق بین الاقومی برادری اور ایران کے درمیان جاری گفت و شنید میں کوئی تعطل پیدا ہوتا ہے تو ترکی کو ایران کے ساتھ تعلقات میں کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ترک حکومت کے حامی اخبار ’ڈیلی صباح‘ میں دفاعی اور خارجہ امور کور کرنے والی ترک صحافی نور ایوزکان کے مطابق گزشتہ سال کے آخر میں ترکی نے سفارتی سطح پر تعلقات کی بہتری کے لیے کوششیں تیز کر دی تھیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 2022 میں ان کے نتائج آنا شروع ہوں گے۔انہوں نے گزشتہ ماہ اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ترکی دو طرفہ تعلقات میں اختلافِ رائے کے باوجود روس، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور مشترکہ مسائل کے قابلِ قبول حل تلاش کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔نور ایوزکان کے مطابق ترکی علاقائی سطح پر نئے اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے تحت ترکی نیمتحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک، اسرائیل، مصر اور آرمینیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوششیں گزشتہ برس سے تیز کر دی ہیں۔اس سلسلے میں خاص طور پر گزشتہ برس نومبر سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے ایردوان کی بڑھتی ہوئی قربت کو اہمیت دی جا رہی ہے۔گزشتہ برس نومبر میں ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید النیہان نے انقرہ کا دورہ کیا تھا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے اعلانات سامنے آئے تھے اور اب صدر ایردوان نے عرب امارات کا دورہ کیا ہے۔اس پیش رفت کو اس لیے اہمیت دی جارہی ہے کیوں کہ امارات اور سعودی عرب کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں طویل سرد مہری کے بعد اب بہتری کی کوششیں ماضی کی پالیسی سے مختلف ہیں۔گزشتہ برس نومبر میں ولی عہد شیخ محمد بن زید 2012 کے بعد پہلے اعلیٰ ترین اماراتی عہدے دار تھے جنہوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ اس سے قبل شام، خلیج اور لیبیا میں ترکی کے کردار کی وجہ سے یو اے ای کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے تھے۔یہ اختلافات اس وقت مزید شدید ہو گئے تھے جب ترکی نے خطے میں تنظیم اخوان المسلمین کی حمایت شروع کر دی تھی۔ امارات سمیت دیگر عرب ممالک اس تنظیم کو اپنی قومی سلامتی اور موروثی نظامِ حکومت کو درپیش بڑے خطرات میں شمار کرتے ہیں۔ایردوان کی حکومت متحدہ عرب امارات پر امریکہ میں مقیم مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک کی مدد کا شبہہ ظاہر کرتی آئی ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے 2016 میں ایردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔حکومت کے حامی تھنک ٹینک سیٹا کے جنرل کوآرڈینیٹر اور تجزیہ کار برہانتین دران کے مطابق صدر بائیڈن نے تعلقات کو معمول پر لانے کا جو عندیہ دیا ہے اس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی صف بندی ہوئی ہے۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے اس عمل میں ترکی، عرب امارات اور اسرائیل نمایاں ترین کردار بن کر ابھرے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے کے اس عمل نے گزشتہ برس ترکی کی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کیا تھا۔برہانتین کے مطابق خطے کے حالات بدل رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ترکی کے تعلقات کے بارے میں زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔ لیکن اسرائیل، مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کا نقش 2022 پر نظر آئے گا۔

Related Articles