سپریم کورٹ نے سی اے اے پر دو نوڈل ایڈوکیٹ مقرر کیے، سماعت 6 دسمبر کو

نئی دہلی، اکتوبر۔سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کی جوازیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں سے متعلقہ دستاویزات مرتب کرنے کے لیے پیر کو دو نوڈل ایڈوکیٹ کا تقرر کیا۔ چیف جسٹس یو اتم للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی کی بنچ نے درخواست گزاروں میں شامل انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کی وکیل پلوی پرتاپ اور مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیلوں میں سے ایک کانو اگروال کو نوڈل وکیل کے طور پر مقرر کیا اور اس معاملے کی اگلی سماعت کے لئے 6 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ بنچ نے نوڈل ایڈووکیٹ سے کہا کہ وہ درخواستوں میں تنازعہ کے اہم نکات کو شامل کرتے ہوئے جغرافیائی اور مذہبی درجہ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل طریقے سے ایک یا دو اہم دستاویز تیار کرکے متعلقہ عرضیوں کے وکلاء کے ساتھ شیئر کریں۔ بنچ نے نوڈل وکلاء سے کہا کہ وہ تنازعہ کے اہم نکات کو مرتب کرتے وقت جغرافیائی اور مذہبی درجہ بندی کو ذہن میں رکھیں۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت میں کہا کہ اس معاملے میں 232 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ اس میں آسام سے 50 اور تریپورہ سے تین کو چھوڑ کر دیگر کے معاملے میں مرکزی حکومت نے اپنا جواب داخل کیا ہے۔ سالیسٹر جنرل نے آسام اور تریپورہ کے جغرافیائی محل وقوع کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے میں جواب داخل کرنے کے لیے کچھ اور وقت کی درخواست کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صرف چند دن کا وقت دا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 12 ستمبر کو مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ وہ 31 اکتوبر کو ہونے والی اگلی سماعت سے پہلے درخواستوں پر اپنا جواب داخل کرے۔ مرکزی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرکے جواب داخل کیا، جس میں سی اے اے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی مخالفت کی گئی ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے 150 صفحات کے حلف نامے میں کہا ہے کہ سال 2019 میں پیش کئے گئے سی اے اے کا کسی بھی ہندوستانی شہری کے قانونی، جمہوری یا سیکولر حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سی اے اے صرف ایک محدود قانون سازی کا اقدام ہے، جو اس کے اطلاق میں محدود ہے اور شہریت سے متعلق موجودہ قانونی حقوق یا حکمرانی کو کسی بھی طرح متاثر نہیں کرتا ہے۔ سی اے اے 2019 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد 12 دسمبر 2019 کو صدر کی منظوری مل گئی۔عدالت عظمیٰ نے 18 دسمبر 2019 کو سی اے اے 2019 پر روک لگانے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، لیکن اس کی جوازیت کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

 

Related Articles