روس اورایران شام میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی حمایت کریں:طیب ایردوآن

تہران،جولائی ۔ ترک صدررجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام میں ’’دہشت گردی‘‘کے خلاف جنگ میں روس اور ایران کی ’’حمایت‘‘ کا خواہاں ہے۔وہ منگل کو تہران میں شامی تنازع پر روس اور ایران کے ساتھ سہ فریقی سربراہ اجلاس میں گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے اس بات پر زوردیا ہے کہ’’ محض زبانی جمع خرچ اورالفاظ ہی کافی نہیں،ترکی مسلح دہشت گرد کرد گروہوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گااور اس بات کی پروا نہیں کی جائے گی کہ کون سا ملک اس جنگ میں اس کی حمایت کرتا ہے‘‘۔صدرایردوآن نے کہا کہ ہم روس اورایران سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کی حمایت کریں گے۔وہ کئی ہفتے قبل خبردارکرچکے ہیں کہ انقرہ جلد ہی شام میں ایک نئی فوجی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ان کا اشارہ کردملیشیا کے خلاف کارروائی کی طرف تھا۔انھوں نے کرد وائی پی جی ملیشیا پرالزام عاید کیا کہ وہ شام کو غیرملکی حمایت سے تقسیم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔ان کے بہ قول شامی عوام کو اسی صورت میں فائدہ ہوسکتا ہے کہ اس تنظیم کاقلع قمع کردیا جائے۔واضح رہے کہ ترکی نے کردمسلح گروپوں کو دہشت گردقراردے رکھا ہے۔وہ شام سے تعلق رکھنے والے کردملیشیا وائی پی جی کو کالعدم کردستان ورکرزپارٹی (پی کے کے) کی اتحادی اور شاخ ہی قراردیتا ہے۔پی کے کے ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں مسلح افواج کے خلاف برسرپیکار ہے۔وہ شام میں کرد ملیشیا کی قیادت میں مسلح فورسزکو بھی دہشت گرد قراردیتا ہے اورانھیں اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ گردانتا ہے جبکہ امریکاانھیں اپنا اتحادی قراردیتا ہے اور وہ ماضی میں شام میں کرد جنگجوؤں کو ہر طرح کی امداد مہیا کرتا رہا ہے۔اس کی بدولت ہی کردوائی پی جے کے زیرقیادت شامی جمہوری فورسز نے شام کے ایک بڑے علاقے سے سخت گیرجنگجو گروپ داعش کو نکال باہرکیا تھا اور اب داعش کے چھوڑے بہت سے علاقوں میں کنٹرول قائم کررکھا ہے۔اس سہ فریقی اجلاس میں میزبان ایرانی صدرابراہیم رئیسی نے کہا کہ تہران شام میں جاری بحران کے سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’شام کی قسمت کا فیصلہ اس کے عوام کوکسی غیرملکی مداخلت کے بغیر کرناچاہیے۔قابض امریکی افواج کی ناجائز موجودگی نے شام کو غیرمستحکم کیا ہے جبکہ شامی فوج کی طاقتور موجودگی سے ملک کی سالمیت کو برقراررکھنے میں مدد ملے گی‘‘۔

Related Articles