برطانوی سیاست: کیا بورس جانسن کے ساتھ سب ٹھیک ہے؟
لندن،نومبر۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کہتے ہیں کہ برطانیہ کی کاروباری برادری کی تنظیم سی بی آئی کی کانفرنس میں ان کی تقریر اچھی رہی تھی۔واقعی؟ وزیرِاعظم ہمیشہ ہی ایسی خصوصیات کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں جو انھیں بہت سے دوسرے سیاستدانوں سے مختلف بناتی ہیں، مثلاً مذاق کرنا، بے تکی باتیں، غیر رسمی انداز، ایک قمیض جو پوری طرح پینٹ میں نہیں ڈالی گئی۔اپنے سیاسی سفر میں وہ اس سب کے باوجود کہاں تک پہنچ چکے ہیں، ان کے پاس پارلیمان میں ایک تاریخی اکثریت ہے اور یہ باتیں کسی نہ کسی طرح ان کے کام ہی آئی ہیں۔اور ان کے حامی تو یہ سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعظم کی یہی شخصیت ہے جو ووٹروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ وہ سیاستدانوں کی اس مینیجروں والی کلاس میں سے نہیں ہیں جن کی وجہ سے بہت سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’یہ سارے ہی ایک جیسے ہیں۔‘لیکن کیا پیر کے روز ڈیسک پر پڑے مائیک کے سامنے ان کی بے ترتیبی کچھ مختلف تھی؟وزیر اعظم اپنی تقریر کے صفحات میں کھوئے ہوئے دکھائی دیے۔ لگتا تھا کہ وہ ’پیپا پگ ورلڈ‘ کے اپنے دورے کے بعد ساییڈ ٹریک ہیں اور ایک موقع پر وہ حضرت موسیٰ کی شخصیت سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ یہاں تک کہ ایک رپورٹر نے ان سے پوچھ ہی لیا: ’کیا سب کچھ ٹھیک ہے؟‘دفتر میں کسی کا بھی دن برا ہو سکتا ہے۔ اور مختلف موقعوں پر ٹوری جماعت کے اراکین تو ایسی صورتِ حال ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی وزیرِاعظم یہ نہیں چاہے گا کہ اس سے یہ سوال پوچھا جائے کہ آپ کیسے ہیں۔اور بہت سے کنزرویٹیو یہی سوال کر رہے ہیں کہ اس وقت ڈاؤننگ سٹریٹ میں کیا ہو رہا ہے۔سلیز کے بارے میں ایک خود ساختہ غلطی کے بعد جس کی وجہ سے دو ہفتوں سے بھیانک شہ سرخیاں بنتی رہیں ہیں اور ریلوے کے منصوبوں کے بارے میں گذشتہ ہفتے شکایات کی آوازوں کے بعد، مسٹر جانسن کی ایک اہم سالانہ کاروباری کانفرنس میں حاضری اپنے اختیار کو دوبارہ ظاہر کرنے کا ایک لمحہ ثابت ہو سکتی تھی، جو پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے ممبر پارلیمان کو بتاتی کہ 80 سیٹوں کی اکثریت والے لیڈر کی طاقت کیسی ہوتی ہے؟لیکن ایسا بالکل نظر نہیں آیا۔ اگر کچھ نظر آیا تو وہ ان کے پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے سپاہیوں کو اپنے وزیر اعظم کے بارے میں تڑپنے کا ایک دردناک بصری استعارہ تھا، جو تیار کردہ تقریر کے صفحات الٹ رہے تھے، معافی مانگ رہے تھے کیونکہ انھیں واقعی اپنی جگہ نہیں مل رہی تھی۔
ٹھوس تشویش:سوموار کی رات کو انھیں بزرگوں اور کمزوروں کی دیکھ بھال کے متوقع منصوبوں میں کم فراخدلی کا مظاہرہ کرنے پر اپنے ساتھیوں کی طرف سے زیادہ چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ووٹ تو ضائع نہیں ہوا لیکن چپکے سے غیر حاضر رہنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنی ہی ایک کہانی سناتی ہے۔ کنزرویٹیو ممبر پارلیمان کا ایک گروہ ہے جو اتنے غصے میں تو نہیں کہ اپنے سیاسی آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، لیکن اتنا مایوس ضرور ہے مکمل حمایت بھی نہ دے۔اس بارے میں بھی واضح تشویش ہے کہ ڈاؤننگ سٹریٹ میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک سینئر ممبر پارلیمان اور سابق وزیر نے، جو بورس جانسن کے دوست بھی ہیں، کہا کہ نمبر 10 میں ’امیچور‘ (ناپختہ) لوگ ہیں۔ انھوں نے کام میں کمی کی بھی شکایت کی۔یہاں تک کہ ڈاؤننگ سٹریٹ کے اندر بھی دیگر کہہ رہے ہیں کہ کابینہ کے وزرا بہتری لائیں۔ وہ کہتے ہیں ’اس عمارت میں بہت زیادہ تشویش ہے۔۔۔ بس کام نہیں ہو رہا۔‘بورس جانسن کا سیاسی انداز ہمیشہ ان چیزوں پر انحصار نہیں کرتا جو آسانی سے چلتی ہیں اور یہ خیال کہ اس حکومت نے جو بڑے بڑے وعدے کیے ہیں انھیں سیاسی بے چینی کے بغیر آگے بڑھایا جائے گا سراسر بیوقوفی ہے۔لیکن بظاہر وزیر اعظم کے مسائل کی فہرست میں اضافہ ہی ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ان کی پارٹی کا ان پر یقین کہ وہ چیزوں کو ٹھیک کر دیں گے متزلزل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔جس چیز کے بارے میں نہ تو ان کے حمایتی اور نہ ہی مخالفت یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آیا اس موسم خزاں میں ایک اہم گراوٹ کا آغاز ہو گا یا پھر دھماکے دار، اور شاید متوقع، وسط مدتی انتخابات کے کیس کی طرف ایک اشارہ ہے۔