ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے؟
ایم شفیع میر،گول/جموں و کشمیر
اس دنیامیں حیات جاوداں کسی کو میسر نہیں،جو بھی اِس فانی دنیا میں آیااْس نے اپنے وقت مقررہ پردائمی مفارقت دی۔اِس کائنات میں ہزاروں عظیم ہستیوں نے آنکھ کھولی،جن کی جلائی ہوئی شمعوں سے زندہ قوموں کوسیدھاراستہ ملتا ہے۔ توحید و سنت کی دعوت کے ایسے ہی کارواں کے ایک رہنما’’ میاں بشیر احمد لاروی المعروف باباجی‘‘ بھی تھے جو گزشتہ ماہ ہم سے جدا ہوئے۔اْنکے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اْسے پْرکرنا محال سا لگتا ہے۔ کیونکہ کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جا نے سے مدتوں ان کا خلا ?باقی رہتا ہے۔یہ سچ ہے کہ’’باباجی‘‘کی علمی،عملی اور روحانی شخصیت سے جموں وکشمیر بلکہ برصغیرکا ہر انسان متاثر ہے اور واقف ہے لیکن اگرہم نے نئی نسل کے سا منے اِن جیسی عظیم شخصیات کا صحیح تعارف نہیں کرایا تو یہ ایک بہت بڑی نا انصافی ہو گی کیونکہ نئی نسل اْن کی سیرت و کردارسے یکسر محروم ہو کر رہ جائیگی،جسکا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ماضی حال سے جدا ہو جا ئیگا کیونکہ حال اور مستقبل سے آگاہی ماضی کو جا نے بغیرممکن نہیں۔ جبکہ حال اور مستقبل کوجوڑ نے والی یہی وہ عظیم شخصیتیں ہیں جن کے فکرانگیز کرداراور نگاہ بلند تجربات سے ہم ا پنے حال کو ماضی کے آئینے میں نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ماضی میں ہوئی غلطیوں اور کوتاہئیوں سے عبرت بھی حاصل کر تے ہیں ،پھر آج جو شخصیتیں ہمارے درمیان سے چلی جاتی ہیں ان کا نعم البدل تو کیابدل ہی مشکل سے ملتا ہے۔غم تو ضرور ہے لیکن موت اور زندگی کی دوستی کب ہوئی زندگی ہمیشہ اس جنگ میں شکست کھا جاتی ہے۔بقول شاعر۔۔۔۔۔۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
داعی ? دین ،روحانی علمی اورعملیشخصیت میاں بشیر احمد لاروی صاحب اب ہمارے درمیان تو نہیں لیکن اْنکے بلند کرداراوراْن کی انمول نصیحتوں سے ہم اپنی زندگی کو ایک صحیح راہ پر ڈھالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔باباجی گزشتہ ماہ 14اگست2021مطابق۵۰ محرم الحرام ۳۴۴۱ھ کوزندگی کی 98بہاریں دیکھنے کے بعد اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے ’’ انا للہ وا نا الیہ راجعون ‘‘،اْن کا جانادِل کا جانا ہے، اْن کا جانااک سنہرے دور کا خاتمہ ہے !!
میاں بشیر احمد لاروی جنہیں بابا جی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، جموں و کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں اور ان کی مذہبی اور روحانی تعلیمات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر قابلِ احترام اور نمایاں تھے۔میاں بشیر احمد لاروی نومبر 1923میں وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع میں کنگن کے بابا نگری وانگت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم حضرت میاں نظام الدین لاروی اور آپ کے دادا جان بابا جی صاحب لاروی بھی مذہبی شخصیات تھیں۔
میاں بشیر احمد کے خاندان کے سیاسی کیرئیرپر نظر ڈالی جائے تو آپ نے سیاست میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد کبھی کوئی الیکشن نہیں ہارا۔میاں بشیر احمد لاروی کے دو فرزند میاں سرفراز احمد اور میاں الطاف احمد ہیں۔ میاں الطاف احمد جموں و کشمیر میں جنگلات اور ماحولیات کے وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ جموں و کشمیر میں کابینہ کے وزیر رہ چکے ہیں۔ میاں بشیر احمد نے اپنے بیٹے میاں الطاف احمد کو جون 2017میں 122ویں سالانہ عرس پر سجادہ نشین زیارت بابا جی صاحب لاروی وانگت کے طور پر نامزد کیا۔میاں بشیر بحیثیت گوجر لیڈر منفرد مقام رکھتے تھے۔
میاں بشیر احمد لاروی 1997تک سیاست میں بہت سرگرم بھی رہے اور اس سے قبل 4بار 1967، 1972اور 1977میں جموں و کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہو ئے تھے۔میاں بشیر ، شیخ محمد عبداللہ ، سید میر قاسم اور بخشی غلام محمدکے قریبی ساتھی تھے اور تینوں کی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔میاں بشیر نے پاکستان کے سابق صدر ضیاالحق کے دور اقتدار میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس دوران انہیں باضابطہ طور سیکورٹی فراہم کی گئی تھی۔انہیں حکومت ہند نے 26جنوری 2008کو سماج میں اِن کی خدمات کے لئے پدم بھوشن (تیسرا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ) سے نوازا۔
آپ نے شہرت یافتہ عالم دین اور باکردار شخصیت کے طور پربھی اپنا لوہا منوایا، اپنی ساری زندگی راہ ِ حق میں صرف کر دی۔آپ نے اپنی زندگی میں علم دین کی ایسی شمعیں روشن کیںجوقوم کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا۔ آپ کا کردار پورے برصغیر پر ظاہر ہے ، جس کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ آپ نے اللہ کی محبت اور رضامندی حاصل کرنے کیلئے جو محنت کی وہ کھلی کتاب ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا ہر فرد آپ کی رحلت پر سوگوار ہے۔ آپ عالم بالعمل تھے، آپ نے ذات پات، رنگ نسل، مذہب و ملت کی تفریق کئے بغیر انسانیت کی جس طرح سے خدمت کی وہ تاریخ میں سنہروں حروف کیساتھ رقم ہو چکاہے۔
آپ میں بے شمار خوبیاں تھیں،کس کس طرح سے آپ کی خوبیوں کو بیان کیا جائے،راقم کے پاس اتنے الفاظ میسر نہیں کہ آپ کی تمام خوبیوں کو صفحہ قرطاس پہ اْتار سکوں۔آپ نے جس طرح سے اپنی پوری زندگی اللہ کی رضامندی کیلئے گزاری وہ نسل ِ نو کیلئے مشعل ِ راہ ہے،آپ انتہائی خوش اخلاق، خوش مزاج اور انسان دوست شخصیت تھے۔ آپ سے جو ایک بار ملتا تو بار بار آپ سے ملنے کی تمنا کرتا، آپ کی خوش مزاجی، پرنورہنستا اورمسکراتا ہو چہرا ، بات کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے ، آپ کی طبیعت نہا یت حق پسند واقع ہوئی۔قدرت نے آپ کے اندر بہت سی ایسی خصو صیا ت ودیعت رکھی تھیں جو آپکو اپنے معاصرسے ہمیشہ ممتاز رکھتی تھی اورآپ کی اس امتیا زی شان کا پورے جموں و کشمیر کے لوگ اعتراف کر تے ہیں اور ان کے تعلق سے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے اور اس میں کو ئی مبا لغہ بھی نہیں کہ آپ نے دین ِ اسلام اور انسانیت کی خاطر اپنی تمام تر صلا حیتوںکو بروئے کار لایا اور پھر اس کے توسط سے عزت اور شہرت کے وہ منازل طے کئے کہ ایسی شناخت اور پہنچان ہوئی جس کی کو ئی نظیر نہیں!!آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپکوکروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے۔بحرحال آپ کا اس دنیا سے چلا جانا جموں و کشمیر میں انجام دی ہوئی اپنی بے لوث خدمت کے تعلق سے ایک عظیم سانحہ ہے جس کو یقینا ًآج بھی عظیم سانحہ کی طر ح محسوس کیا جا رہا ہے اور ہمیشہ آپ کی اس کمی کو محسوس کیا جائے گا۔