ایرانی صدر کا جوہری سرگرمیاں جاری رکھنے کا عزم
تہران،اپریل۔ایرانی صدرابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ان کا ملک جوہری ترقی کی سرگرمیاں جاری رکھے گا جبکہ عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ایران کے جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سخت گیر صدر نے کہا کہ ان کی انتظامیہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی کی تحقیق میں تیزی لانے کی حمایت کرے گی۔انھوں نے کہا کہ جوہری شعبے میں ہمارا علم اور ٹیکنالوجی قابل واپسی نہیں۔پْرامن جوہری پروگرام میں ایران کی تحقیق کا تسلسل دوسروں کے مطالبات یا نقطہ نظر پر منحصر نہیں ہوگا۔گذشتہ سال اگست میں برسراقتدار آنے والے رئیسی نے یہ تبصرے ایسے وقت میں کیا ہے جب 2015 میں جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان بات چیت تعطل کا شکار ہوچکی ہے۔ایران طویل عرصے سے اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ اس سے برقی بجلی اور طبی آئسوٹوپ بنانا چاہتا ہے جبکہ عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ ایران جوہری بم بنانا چاہتا ہے۔ہفتہ کی تقریب کے دوران ایران نے اپنی نئی سول جوہری کامیابیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ان میں متعدد طبی آئسوٹوپس، زرعی کیڑے مار ادویہ، ڈیٹاکسیفیکیشن آلات اور جوہری ایندھن کا مواد شامل ہیں۔رپورٹ میں اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ایران کی سویلین جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ جلد ہی 360 میگاواٹ صلاحیت کے ساتھ ایک نئے جوہری بجلی گھر کی تعمیر پر کام شروع کردیا جائے گا۔یہ ملک کے جنوب مغرب میں تیل کی دولت سے مالا مال صوبہ خوزستان میں درخووین شہر کے قریب واقع ہوگا۔فرانس کی مدد سے یہ پلانٹ 1979 کے اسلامی انقلاب سے پہلے تعمیر کیا جانا تھا لیکن اس منصوبے کو اس کے ابتدائی مرحلے میں روک دیا گیا تھا۔ یہ جگہ ایران اور عراق کے درمیان 1980 میں شروع ہونے والی آٹھ سالہ جنگ میں لڑائی کا ایک بڑا میدان بن گئی تھی۔ایران کا واحد جوہری بجلی گھر 2011 میں جنوبی بندرگاہ شہر بوشہر میں روس کی مدد سے آن لائن ہوا تھا۔اس کی گنجائش 1000 میگاواٹ ہے۔ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت وہ 60 فی صد تک مصفا یورینیم تیار کررہا ہے۔ یہ ایران کی اب تک کی بلند ترین سطح ہے اور یہ ہتھیاروں کے گریڈ کی سطح 90 فی صد سے ایک مختصر تکنیکی قدم کم ہے۔ یہ 2015ء میں طے شدہ جوہری معاہدے کی 3۰68 فی صد کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔دریں اثناء ہفتے کے روز ایران کی وزارت خارجہ نے ملک کو نقصان پہنچانے میں امریکی حکام کے کردار پرعلامتی پابندیاں عایدکردی ہیں۔16افراد پر مشتمل اس فہرست میں عراق میں امریکی افواج کے سابق کمانڈر جارج ولیم کیسی بھی شامل ہیں۔ان کے علاوہ مرکزی کمان کے سابق کمانڈر جوزف ووٹل،افغانستان میں امریکی افواج کے سابق کمانڈر آسٹن سکاٹ ملر، لبنان میں امریکی سفیر ڈورتھی شیا اور سابق ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر عہدے دار شامل ہیں۔ایران وقتاً فوقتاً امریکیوں کے خلاف پابندیاں عاید کرتا رہتا ہے۔اس کی پابندیوں کی زد میں آنے والے امریکیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔جنوری میں ایران نے 2020 میں عراق میں اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں 50 سے زیادہ امریکیوں کے خلاف ان کے مبیّنہ کردارپرپابندیوں کی منظوری دی تھی۔ 2021ء میں ایران نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور آٹھ دوسرے اعلیٰ عہدے داروں پرپابندیاں عاید کی تھیں۔ان پابندیوں کے تحت نشانہ بنائے گئے افراد ایران نہیں جاسکتے اور وہاں اگران کے اثاثے ہیں تو انھیں ضبط کرلیا گیا ہے لیکن ان اقدامات کو علامتی طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ امریکیوں کا ایران میں کوئی اثاثہ نہیں ہے۔