آسٹریا: انتہائی تکلیف میں مبتلا مریضوں کو خودکشی میں معاونت کی سہولت کا قانونی حق مل گیا
ویانا،جنوری۔یورپ کے ملک آسٹریا میں اب ایسے بالغ افراد جنھیں انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل علاج بیماری لاحق ہو قانونی طور پر خود سے اپنی موت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔آسٹریا کی پارلیمان سے دسمبر میں منظور ہونے والے اس قانون نے ’یوتھنیزیا‘ یا خودکشی میں معاونت کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے جس کے مطابق ایسے افراد معاونت کی درخواست کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ کئی افراد ناقابل تکلیف بیماری کے باعث ایسا فیصلہ کرتے ہیں لیکن دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک میں اسے اب تک غیر قانونی سمجھا جاتا ہے اور ایسے کسی بھی فرد کی مدد بھی قابل سزا جرم ہے۔
’ایسے کیسز کی سختی سے نگرانی ہو گی‘:آسٹریا کی حکومت کے مطابق اس قانون کی منظوری کے بعد ایسے کیسز کی سختی سے نگرانی کی جائے گی اور ہر ایسی درخواست کی منظوری سے پہلے دو ڈاکٹرز جائزہ لیں گے کہ آیا اسے قبول کرنا چاہیے بھی یا نہیں۔ان ڈاکٹرز میں سے ایک کا ’پیلیاٹیو میڈیسن‘ کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ یہ طب کا وہ شعبہ ہے جس کے تحت شدید بیمار افراد کی تکلیف کو کم کرنے میں مدد دی جاتی ہے۔آسٹریا کی حکومت نے قانون کی منظوری کے ساتھ ساتھ طب کے اس شعبے کو بھی مزید بہتر بنانے کے لیے فنڈز جاری کیے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کسی بھی مریض کے پاس موت کا فیصلہ کرنے کے علاوہ بھی دیگر مواقع موجود ہوں۔آسٹریا کے ہمسایہ ملک سوئٹزرلینڈ میں بھی خودکشی میں معاونت کی قانونی اجازت ہے جبکہ یورپ کے کئی ممالک (جن میں سپین، بیلجیئم اور ہالینڈ شامل ہیں) ایسے کیسز میں سزا ختم کر چکے ہیں۔آسٹریا کے نئے قانون کی منظوری کے بعد یہ واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی فرد کی جانب سے عام حالات میں خود کشی میں معاونت اب بھی جرم تصور کی جائے گی جب کہ نئے قانون میں نا بالغ افراد اور ذہنی مریضوں کو بھی معاونت کی اجازت نہیں۔
فیصلے بعد کچھ وقت دوبارہ سوچنے کے لیے دیا جائے گا:اس قانون کے تحت ایسے بالغ افراد جو یہ فیصلہ کریں گے کہ انھیں خود کشی میں معاونت درکار ہے ان کو پہلے اپنی بیماری کے شواہد دینا ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ایسے افراد کو دو ڈاکٹرز کی جانب سے منظوری کے بعد مزید بارہ ہفتوں کا وقت دیا جائے گا جس کے دوران وہ اپنے فیصلے پر ازسر نو غور کر سکیں گے۔ ناقابل علاج اور موت کے قریب مریضوں کے لیے یہ مدت دو ہفتوں پر مشتمل ہو گی۔اگر کوئی شخص اس مدت کے بعد بھی اپنے فیصلے پر برقرار رہے گا تو انھیں وکیل کو باقاعدہ اطلاع کے بعد کسی فارمیسی پر ایسی ادویات دی جا سکیں گی جن سے ان کی موت واقع ہو سکے۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسی فارمیسی کا نام خفیہ رکھا جائے گا اور صرف مریضوں کے وکلا کو ہی ان کے بارے میں بتایا جائے گا۔اب تک آسٹریا کے قانون میں خود کشی میں معاونت پر پانچ سال جیل کی سزا تھی لیکن گزشتہ سال خودکشی میں معاونت سے پابندی اس وقت اٹھا لی گئی تھی جب ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ قانون حق خود ارادیت کی خلاف ورزی ہے۔آسٹریا کے قانون کے تحت کسی بھی فرد کو خود کشی میں بلاوجہ معاونت پر اب بھی پانچ سال کی سزا برقرار رہے گی۔
آسٹریا میں منظور ہونے والے قانون پر بحث:آسٹریا میں خود کشی میں معاونت کا منظور ہونے والا قانون کافی دیر زیر بحث رہا۔اس قانون کی منظوری سے قبل حزب مخالف کی جانب سے بھی یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ حکومتی قانون میں خود کشی میں معاونت کے حق دار افراد کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے بہت سی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔جب کہ دوسری جانب ایک گروہ ایسا بھی تھا جن کا اعتراض تھا کہ بہت کم رکاوٹیں رکھی گئی ہیں اور کسی بھی مریض کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت جانچنے کے لیے ماہر نفسیات کا ایک ہی جائزہ کافی نہیں۔