افغانستان کے اثاثے غیر مشروط جاری اور تمام یکطرفہ پابندیاں ہٹائی جائیں، چین کا مطالبہ
بیجنگ،مارچ۔چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے پیر کو کہا ہیکہ ان کا ملک افغانستان کے پڑوسیوں کیساتھ مل کر افغان باشندوں کو انسانی امداد کی فراہمی میں مدد فراہم کررہا ہے اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے تمام اثاثوں کو فوری ریلیز کرے۔وانگ نے بیجنگ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ” افغانستان اس وقت انتشار سے نظم ونسق کی جانب تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکہ غیر ذمہ دارانہ انداز سے افغانستان سے نکلا، جس نے افغان عوام کو ایک سنگین انسانی بحران سے دوچار کرکے علاقائی استحکام کے لیے بھی سیکورٹی خدشات پیدا کردیے ہیں۔وانگ نے کہا کہ ” ہم امریکہ میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کو فوری ریلیز کرنے اور تمام یکطرفہ پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں جس سے افغان عوام کو موسم بہار میں حالات بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔امریکی وزارت خزانہ نے گزشتہ ماہ ایک نیا لائسنس جاری کیا تھا جس میں افغانستان کے حکومتی اداروں کے ساتھ تجارتی لین دین کی اجازت دی گئی تھی اور طالبان سے منسلک اداروں کے خلاف پہلے کیاعلان کردہ چھوٹ میں مزید اضافہ کیا گیا تھا۔امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی حال ہی میں ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت منجمد اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالرگیارہ ستمبر2001ء کے دہشت گرد حملوں کے متاثرین میں تقسیم کرنے کے لیے مختص کیے گء،ے جبکہ بقیہ رقم افغانستان میں انسانی بنیادوں پر قائم ٹرسٹ کے لیے مختص کی گئی ہے۔اس اقدام پر سخت تنقید ہوئی۔ لیکن امریکی حکام نے وضاحت کی کہ نائین الیون کے متاثرین کو فنڈ کی منتقلی کا کوئی بھی فیصلہ عدالتی کارروائی سے مشروط ہے۔ ا کتوبر سے بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان اور خطے میں افغان مہاجرین کے لیے 780ملین ڈالر سے زیادہ انسانی امداد کا اعلان کیا ہے۔وانگ نے کہا کہ چین اس بحران زدہ ملک میں پائیدار استحکام اور سلامتی کے لیے افغانستان کے قریبی ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے تیسرے اجلاس کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔پاکستان نے ستمبر میں طالبان کے اقتدار سبھالنے کے بعد خطے کے وزرائے خارجہ کے پہلے اجلاس کی میزبانی کی تھی جبکہ دوسرا اجلاس ایران میں ہوا تھا۔ بیجنگ میں دو روزہ کانفرنس تیس مارچ کومنعقد ہوگی۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس اجلاس میں طالبان نمائندوں کے علاوہ روس بھی شریک ہوگا۔