اجتماعی عصمت دری اور قتل جیسے سنگین جرائم میں قصوروارقیدیوں کو معاف کرنے کا فیصلہ غلط: کانگریس
نئی دہلی، اگست۔ کانگریس نے ‘امرت مہوتسوکے موقع پر آبرو ریزی، اجتماعی عصمت دری اور قتل جیسے سنگین جرائم کے قصوروار 11 قیدیوں کو معاف کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو اس معاملے میں ملک کو جواب دینا ہوگا۔کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے بدھ کے روز یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ رہائی غیر قانونی ہے اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر گمراہ کیا گیا ہے، اس لیے اس معاملے پر مسٹر مودی اور مسٹر شاہ کے ساتھ ہی گجرات حکومت کو بھی جواب دینا چاہیے۔کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی حکومت پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ "جن لوگوں نے پانچ ماہ کی حاملہ خاتون کی عصمت دری کی اور اس کی تین سالہ بچی کو قتل کیا، انہیں ‘آزادی کے امرت مہوتسوکے دوران رہا کر دیا گیا۔ ناری شکتی کی بات کرنے والے ملک کی خواتین کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟وزیراعظم صاحب، پورا ملک آپ کے قول و فعل میں فرق دیکھ رہا ہے۔پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے حکومت پر بے حس ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، "حاملہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے بچے کو قتل کرنے کے جرم میں تمام عدالتوں سے عمر قید کی سزا یافتہ مجرموں کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ رہائی، کیمرے کے سامنے ان کا استقبال- کیا یہ خواتین کے ساتھ ناانصافی اور بے حسی کی انتہا نہیں ہے؟”کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ سنگین جرائم کے مجرموں کو اس طرح معاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ گجرات حکومت نے 15 اگست کو امرت مہوتسو کے موقع پر عصمت دری کے 11 مجرموں کو معاف کر کے بہت سے قوانین کو توڑے ہیں۔ عصمت دری اور قتل جیسے جرائم میں مذہب کو نہیں دیکھا جاتا اور مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ گجرات حکومت کہتی ہے کہ اس نے یہ فیصلہ 1992 کی پالیسی کے تحت کیا ہے لیکن اس نے یہ پالیسی 2013 میں ختم کر دی تھی، پھر اس پالیسی کے تحت معافی کیسے دی گئی۔ ریپ کرنے والوں، گینگ ریپ کرنے والوں، قاتلوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا لیکن یہاں امرت مہوتسو پر ایسے سنگین مجرموں کو معافی مل گئی ہے۔ترجمان نے کہا کہ اس رہائی سے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی ہے لہٰذا حکومت ان قیدیوں کو رہا کرنے والی جیل ایڈوائزری کمیٹی میں شامل افراد کے کردار کا بھی جائزہ لے۔