’می ٹو‘ مہم جسے چین میں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے
بیجنگ،ستمبر۔اب ڑیانزی تھکی ہوئی نظر آتی ہیں۔اْنھوں نے بی بی سی کو بیجنگ سے ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ ’معاف کیجیے گا، میں پچھلے ایک گھنٹے سے چیخ رہی ہوں۔‘یہ چین کے اْس مقدمے پر عدالت کے فیصلے کے اگلے دن کی بات ہے۔ چین کی عدالت نے جنسی ہراسانی کے اس اہم مقدمے میں ملک کی ایک نامور شخصیت کے خلاف عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم خاتون، ڑیانزی کے حق میں فیصلہ سْنایا تھا جس کے بعد وہ چین میں ایک کمزور سی تحریک ’می ٹو‘ کی شناخت بن گئی تھیں۔ (دنیا بھر میں عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کو منظرِ عام پر لانے کی تحریک کو ’می ٹو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)۔تین برس مسلسل مقدمہ لڑنے کے باوجود ڑیانزی کو حال ہی میں اْس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب عدالت نے اْن کے مقدمے کو شواہد کی کمی کی بنیاد پر خارج کر دیا۔بی بی سی کے فون سے پہلے ڑیانزی وائیبو پر اپنی ایک حامی سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ (وائیبو ایک ٹویٹر جیسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جہاں 28 برس کی ڑیانزی نے اپنی اچھی خاصی فالووئنگ بنائی ہوئی ہے۔)لیکن عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد سے اْنھیں اور اْن کے فالوورز کو وائیبو نے مکمل طور پر بلاک کر دیا ہے، کیونکہ شاید اس کی فالوور ڑیانزی کے مقدمے کی تشہیر کر رہی تھیں۔جب ڑیانزی کو احساس ہوا کے اْنھیں ان کی آن لائن کمیونٹی سے جدا کر دیا گیا ہے تو اْن کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔’لوگوں کے اکاؤنٹ اکثر و بیشتر معطل کیے جاتے ہیں۔ میرے پاس ان سے رابطے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔ میں ان کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتی تھی۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران چین میں عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی عورتوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا ہے۔ سنہ 2018 میں جب چین میں می ٹو ہیش ٹیگ کی لہر پھیلی تو اس وقت ڑیانزی، جس کا اصل نام ڑاؤ ڑیاوکوان ہے، لیکن وہ اپنے قلمی نام ڑیانزی سے زیادہ مشہور ہیں، بہت سی ایسی خواتین میں سے ایک تھیں جنھوں نے جنسی ہراسانی کے واقعات کے بارے معلومات شیئر کرنا شروع کی تھیں۔تین ہزار الفاظ پر مشتمل ایک مضمون، جو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، کے ذریعے انھوں نے ڑو جون پر الزام عائد کیا کہ سنہ 2014 میں جب وہ ان کے ساتھ انٹرویو کے لیے ان کے ڈریسنگ روم میں گئیں تو انھوں نے اْنھیں جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ ڑو جون ریاستی براڈکاسٹر ’سی سی ٹی وی‘ سے وابستہ ایک میزبان ہیں۔اس وقت وہ 21 برس کی ایک انٹرن تھیں، جبکہ مسٹر ڑو جون چین میں ایک بہت ہی نامور شخصیت تھے، جو موسمِ بہار کے سالانہ پروگرام پیش کرتے اور لاکھوں لوگوں کے لیے ایک معروف چہرہ تھے۔اس کے بعد ڑیانزی کے ایک مضمون نے اس بارے میں مزید تفصیلات افشا کیں، جس میں ڑو جون پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ منع کرنے کے باوجود تقریباً 50 منٹ تک انھیں گھسیٹتے رہے اور زبردستی بوسے کرتے رہے۔اْنھیں یہ زبردستی اس وقت بار بار روکنا پڑتی جب دیگر عملہ مختصر وقت کے لیے کمرے کے اندر داخل ہوتا، لیکن اس واقعہ نے ڑیانزی کو شرم و بدنامی کی وجہ سے اس قدر خوفزدہ کر دیا کہ وہ اس کے بارے میں کسی سے شکایت بھی نہ کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت کمرے سے باہر نکلیں جب مسٹر ڑو جون اپنے عملے کے ایک رکن سے بات چیت کرنے لگے اور ان کی توجہ اْن سے ہٹ گئی۔ اس دوران انھیں ’آہستہ آہستہ اپنے ہوش میں آنے‘ کا موقع ملا اور وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی۔انھوں نے اس وقت لکھا تھا کہ ’میں خوفزدہ تھی کہ ڑو جون کو نقصان پہنچانے سے میری پڑھائی متاثر ہو گی، لہذا میں نے لڑنے کی ہمت ہی نہیں کی۔‘مسٹر ڑو جون تمام الزامات کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے دفاع میں کہا کہ اْسے کردار کشی کی ایک مکروہ مہم کا شکار بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اْنھیں ’زبردست رسوائی‘ برداشت کرنا پڑی ہے۔اس واقعے کے اگلے دن ڑیانزی نے پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی۔ لیکن ان کے مطابق انھیں کہا گیا کہ وہ اس واقعہ کی معلومات اپنی حد تک محدود رکھیں کیونکہ ڑو جون ’مثبت توانائی‘ کا ایک قومی نشان ہیں، جو کہ ایک ایسی ریاستی مہم جس کا مقصد اچھے رویے کو فروغ دینا ہے، اور اس وجہ سے وہ ان شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے جن کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔اس کے بعد وہ اْس وقت تک خاموش رہی جب تک می ٹو (#MeToo) کی تحریک کا آغاز نہیں ہوا۔ڑو جون کے ڑیانزی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کے بعد یہ واقعہ اور بھی زیادہ مشہور ہوا۔ جبکہ ڑیانزی نے اپنے دفاع میں ’شخصی حقوق کی خلاف ورزی‘ پر ڑو جون کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ ’شخصی حقوق کی خلاف ورزی‘ کا قانون اس وقت جنسی ہراسانی کے خلاف کارروائی کے لیے ایک قریب ترین قانون ہے۔تب سے ڑیانزی پریشان ہے۔ووہان میں ایک متوسط طبقے کے خاندان میں پیدا ہونے والی یہ لڑکی 18 برس کی عمر میں وہ فلم ڈائریکٹنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیجنگ چلی گئیں اور سکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔اس کے بعد سے انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے اور وہ گذشتہ تین برسوں سے وہ اپنی بچت اور ادھر اْدھر کے کام کر کے اور کچھ لکھ لکھا کہ گزارا کر رہی ہیں۔ ان کے وکیل ان سے ایک معمولی سی فیس وصول کر رہے ہیں۔ڑیانزی نے اپنی قانونی جنگ لڑنے اور جنسی ہراسانی کے شکار افراد کے لیے مہم چلانے پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے، جن میں سے بہت سے لوگوں نے ان سے مشورہ لینے کے لیے رابطہ کیا ہے، یہ لوگ ان سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر رابطہ کرتے ہیں جہاں اب ان کے تین لاکھ فالوورز ہو چکے ہیں۔اسی دوران حکام نے ان کی آواز کو سینسر کرنے کی کوششیں تیز کر دیں، اس موضوع پر بحثیں بند کر دی گئی ہیں اور انھیں وائیبو پر پوسٹ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔انھوں نے سینسر کی ان پابندیوں سے بچنے کے لیے سب سے پہلے اپنے واقعات پر مشتمل تفصیلات اور اس موضوع سے وابستہ دیگر مقالوں کو اپنے حامیوں تک پہنچانا شروع کر دیا جنھوں نے ان کی طرف سے اپنے اکاؤنٹس پر ان تحریروں کو پوسٹ کیا۔ لیکن پھر ان کے اکاؤنٹس بھی معطل کر دیے گئے۔ڑیانزی تیزی سے تنقید کا نشانہ بھی بنی، کچھ قوم پرست بلاگرز نے ان پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے اور الزام لگایا ہے کہ وہ تنازعات کو ہوا دینے کے لیے ’غیر ملکی قوتوں کے ساتھ ملی بھگت‘ کر رہی ہیں۔ اس ہفتے ریاست کے زیرانتظام شائع ہونے والے اخبار گلوبل ٹائمز میں ان کے کیس پر ایک تبصرہ نگار نے دعویٰ کیا کہ #MeToo تحریک کو مغربی قوتیں ’چینی معاشرے کے حصے بخرے‘ کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔پھر انھیں اپنے مقدمے میں قانونی سْبکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ڑیانزی کے مطابق، عدالت نے ایک نئے عدالتی اصول کے نافذ ہونے کے بعد اس کیس کو جنسی ہراسانی کا مقدمہ قرار دینے کی ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ان نے یہ بھی کہا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت انھیں بولنے کا بہت کم موقع دیتی، اور ان شواہد کو بھی عدالت میں پیش کرنے سے روکا جو ان کے کیس کو مضبوط بناتے تھے، مثال کے طور پر ڈریسنگ روم کے باہر کے علاقے کی ویڈیو فوٹیج اور مسٹر ڑو جون سے اس کی ملاقات کی تصویر۔سنہ 2014 میں انھوں نے ایک نیا ثبوت پیش کرنا چاہا، ایک لباس جو اس نے مسٹر ڑو سے ملنے کے دن پہنا تھا۔ ابتدائی جانچ میں اس لبان میں اْن کے ڈی این اے کا کوئی نشان نہیں ملا۔ لیکن جب انھوں نے بعد میں اسی لباس کے مزید معائنے کی درخواست کی تو اْنھیں عدالت میں بتایا گیا ہے کہ وہ لباس ’کہیں نہیں مل رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ انھیں عدالت نے یہ بھی بتایا کہ مسٹر ڑو کو گواہی دینے پر مجبور کرنا غیر ضروری ہے۔چین کے قانون کے ماہر ڈاریوس لونگارینو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عدالت کے استدلال کو ’ناقابل یقین‘ سمجھتے ہیں۔چین میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان عدالتی فیصلوں کے پیچھے سیاسی محرکات تھے۔ان سب سے بڑھ کر ڑیانزی کو ابھی بھی مسٹر ڑو کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ لڑنا پڑ رہا ہے، جس میں ڑو جون نے ڑیانزی سے ساڑھے چھ لاکھ چینی کرنسی (ایک لاکھ امریکی ڈالر) ہرجانہ طلب کیا ہے۔بی بی سی نے مسٹر ڑو جون اور ان کے وکلا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔اس سب نے ڑیانزی پر بہت منفی اثر ڈالا ہے۔ گذشتہ ہفتے ان کے حامیوں کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں وہ مایوس دکھائی دے رہی تھیں جب وہ بیجنگ میں کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کے فوراً بعد ان سے بات کر رہی تھیں۔چین کے شہری حقوق کے قانون پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ میں 21 برس کی تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اب میں 28 برس کی ہوں، میں بہت تھک چکی ہوں۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ میں مزید تین سال لڑنے کے لیے اپنے میں ہمت و حوصلہ پیدا کر سکتی ہوں۔‘ڑیانزی نے بی بی سی کو بتایا کہ بعض اوقات وہ اس بارے میں پریشان ہو جاتی ہیں کہ کیا وہ اس طرح کے واقعے اور شہرت کے بعد اپنا کیریئر دوبارہ شروع کر سکیں گی۔ لہٰذا وہ کبھی ایک فلم دیکھ کر یا کبھی تھوڑی دیر کے لیے سو کر اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔اس کے حامی، دوست، خاندان اور اْن کا بوائے فرینڈ اْن کی حوصلہ افزائی کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔لیکن اس کے لیے سب سے مؤثر نفسیاتی مدد اپنے مقالوں اور تحریروں کے ذریعے دوسروں سے ابلاغ کرنا اور اپنے دوستوں کے ساتھ بات کرنا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’بات چیت شفا بخش ہے‘، یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی سینسرشپ اْن کے لیے تکلیف دہ ہوتی جا رہی ہے۔ڑیانزی کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ لوگوں کو یہ کہنے سے منع کرتے ہیں کہ وہ زخمی ہیں تو آپ واقعی انھیں تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ میں نے کچھ غلط کیا؟ وہ مجھے کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں؟‘حقیقت میں ڑیانزی کا کیس حالیہ ہفتوں میں اس نوعیت کا دوسرا مشہور ہونے والا واقعہ تھا جس میں بڑی حیثیت کا شخص جنسی ہراسانی میں ملوث تھا۔رواں ماہ کے شروع میں استغاثہ نے چین کی بڑی ٹیک کمپنی علی بابا کے ایک اہلکار کے خلاف الزامات کو خارج کر دیا تھا۔ اِس اہلکار پر الزام تھا کہ اس نے کام کے دوران ایک ساتھی کو اْس وقت ریپ کیا تھا جب وہ نشے میں تھی۔وہ بری تو ہو گیا جبکہ پولیس کی تفتیش سے پتہ چلا تھا کہ اس شخص نے اس کے ساتھ ’بد تمیزی‘ ضرور کی تھی۔ اس شخص کو بالآخر علی بابا کمپنی سے نکال دیا گیا اور 15 دن تک حراست میں رکھا گیا تھا۔چین میں جنسی ہراسانی کے بہت کم کیس ہی عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق بہت ہی ٹھوس قسم کے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً ایسے واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ یا تصاویر ہوں، شواہد کا یہ معیار مدعی پر ثبوت مہیا کرنے کا ایک بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے۔جنسی ہراسانی کے شکار ہونے والوں میں کچھ اپنے واقعات کی آن لائن تشہیر کرتے ہیں، عام طور پر اس وجہ سے کہ ان کا آجر یا ادارہ مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔نیو یارک یونیورسٹی لا سکول میں ریسرچ فیلو، آرون ہالیگْوا کہتے ہیں کہ ’یہ متاثرین محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس عوام تک پہنچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، جو ان اداروں کی شکایات کو حل کرنے میں ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک متاثرہ کو اپنے مالک کو توجہ مبذول کروانے کے لیے وائیبو پر اپنا واقعہ شائع کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔‘لیکن ایسا کرنے سے انھیں ان کے مبینہ ہراساں کرنے والوں کی جانب سے ہتک عزت کا مقدمہ چلانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، اور اس طرح کے معاملات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اکثر مقدمہ ہار جاتی ہیں۔جنوری میں چین میں ایک نیا سول کوڈ قانون نافذ ہوا جس میں آرٹیکل 1010 شامل ہے جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص دوسرے پر مقدمہ دائر کرسکتا ہے اگر اسے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو، اور یہ کہ اداروں اور تنظیموں کو اس طرح کے رویے کو روکنے اور مقدمات کی تفتیش کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔جب اس قانون کو پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا تو اسے ایک کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ییل لا سکول کے ریسرچ اسکالر مسٹر لونگاروینو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے یا ریپ کے الزامات لگائے انھیں حقیقی دنیا میں ایک مختلف قسم کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے چین کا قانونی نظام لوگوں کو ایک ملا جْلا پیغام بھیج رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’شکایت کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو بہت زیادہ نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بہت ہی مایوس کن ہے۔‘مسٹر ہالیگْوا کا کہنا ہے کہ قانون کو زیادہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ جنسی ہراسانی کا ازالہ نہیں کرتے تو آجروں کو کس قسم کی ذمہ داریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان لوگوں کی بھی حفاظت کریں جو کہتے ہیں کہ وہ شکایت کرنے بعد انتقامی کارروائیوں کا شکار بنتے ہیں۔حقوق کی جنگ لڑنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ڑیانزی کیس کا نتیجہ چین کی #MeToo تحریک کے لیے ایک واضح دھچکا رہا ہے۔ کچھ اسے بڑھتی ہوئی مشکلات کی ایک تلخ مثال کے طور پر دیکھتے ہیں جو کہ مبینہ متاثرین کو درپیش ہیں۔ایک فعال کارکن لیانگ شیاوین نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایک چیٹ ایپ وی چیٹ پر 300 ارکان کے ایک حقوق نسواں گروپ کو ڑیانزی کے مقدمے کے فورا بعد معطل کر کے خاموش کر دیا گیا۔ ممبر اب بھی چیٹ میں پوسٹ کر سکتے ہیں، لیکن دوسروں کے پیغامات نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مِس لیانگ کا کہنا ہے کہ ’آپ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں، لیکن آپ اس صورت حال سے آگاہ بھی نہیں ہیں۔‘کچھ کارکنان اس بندش سے نمٹنے کے لیے ارد گرد کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ ڑیانزی کے مقدمے کی سماعت کے بعد اس کے حامیوں نے ’روز کلرڈ یو‘ نامی گانا پوسٹ کرکے اس کے ساتھ آن لائن پر بات چیت کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا۔ اس گیت کے مصرعے کچھ یوں ہیں: ’آپ تھکے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن آپ کبھی نہیں رکتے۔۔۔ مجھے یاد رہے گا کہ آپ نے اس دور میں کیا کیا تھا۔ آپ نے اپنے آپ سے بڑھ کر کچھ کیا تھا۔‘ڑیانزی کے معاملے امید کی کرن ایک مثال بن رہی ہے، کہ اس نے چین کے اندر خواتین کے حقوق کے بارے میں نمایاں طور پر بیداری پیدا کی ہے۔حقوق نسواں کی ایک تجربہ کار فعال کارکن لو پن کا کہنا ہے کہ ’می ٹو (#MeToo) اپنی سرکشی کی وجہ سے ایک اہم تحریک ہے۔۔۔ یہ آخری چند بامعنی آوازوں میں سے ایک ہے جو اب بھی چین میں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اور تحریک دبائی نہیں جا سکتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد چینی خِواتین کے اپنے تجربات پر بنی ہوئی ہے۔‘ڑیانزی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کیس کو انصاف کی جنگ میں ایک ’پیش رفت‘ کے طور پر دیکھتی ہیں اور وہ فی الحال عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔وہ پرعزم انداز میں کہتی ہے کہ ’ہم ایک ساتھ ثابت قدم رہے، یہ پہلے ہی کسی حد ہماری کامیابی ہے۔‘’میں نے کبھی نہیں سوچا کہ ہماری کوششیں بیکار جائیں گی۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی ایسا نہیں سوچا۔‘