فرانس: صدر میخواں کی حکومت کا ’دی فورم آف اسلام‘ بنانے کا اعلان
پیرس،فروری۔فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں کی شدت پسندی کے خاتمے کی کوششوں کے تحت حکومت نے مسلمانوں کے لیے ایک نیا فورم بنانے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد فرانس میں اسلام کی ’تشکیلِ نو‘ بتایا گیا ہے۔خبروں کے مطابق صدر میخواں کی حکومت نے ہفتے کو ’دی فورم آف اسلام‘ بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں علما اور عام افراد بھی شامل ہوں گے۔ فورم کے تمام ارکان کا انتخاب حکومت کرے گی اور اس میں خواتین کو کم از کم ایک چوتھائی نمائندگی دی جائے گی۔گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں اور شام کی جنگ میں فرانسیسی شہریوں کی شرکت کی بنا پر شدت پسندی سے متعلق فرانس میں خدشات پائے جاتے ہیں البتہ بعض حلقے کسی فوری خطرے کو مسترد کرتے ہیں۔حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر میخواں کی جماعت نظریاتی طور پر ’سینٹرسٹ پارٹی‘ ہے اور ان کی حکومت رواں برس اپریل میں ہونیو الے انتخابات میں دائیں بازوں کے ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ اقدامات کر رہی ہے۔حکومتی اقدامات کے حامی انہیں فرانس اور یہاں بسنے والے50 لاکھ مسلمانوں کی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک فرانس میں مسلم تعلیمات کو ملک کی اقدار اور عوامی زندگی میں سیکیولرزم سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے یہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔خبروں کے مطابق ان حالیہ اقدامات پر تنقید کرنے والوں کا الزام ہے کہ صدر میخواں یہ اقدامات انتظامی سطح پر امتیازی سلوک برتنے کی ایک مثال ہے۔ کیوں کہ ان کے ذریعے چند لوگوں کے پرتشدد حملوں کو بنیاد بنا کر ایک پوری کمیونٹی کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے اور ان کی زندگی میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔مغربی یورپ میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی فرانس میں ہے۔ حالیہ فورم کے اعلان سے قبل ’فرینچ کونسل آف مسلم فیتھ‘ کو مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ اور سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی نے 2003 میں اس کونسل کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ کونسل حکومت اور مذہبی قیادت کے درمیان رابطے کے لیے کردار ادا کرتی تھی۔
نیا فورم کیا کرے گا؟ہفتے کو پیرس میں ’دی فورم آف اسلام‘ کی افتتاحی تقریب میں فرانس کے وزیرِ داخلہ جیرالڈ ڈارمینن کا کہنا تھا کہ ہم ریاست اور مذہب کے درمیان تعلق کی نئی ابتدا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’دی فورم آف اسلام‘ زیادہ آزادانہ اور جامع مکالمے اور فرانس میں اسلام کے تنوع کی زیادہ نمائندگی والا فورم ہوگا۔اسلام فرانس میں دوسرا بڑا مذہب ہے۔ یہاں آزاد خیال اور سخت گیر دونوں طرح کے مسلم طبقات ہیں لیکن مسلمانوں کا کوئی ایک مرکزی لیڈر نہیں ہے۔ میخواں کے حالیہ منصوبے میں مساجد کے لیے ترکی یا مراکش سے ائمہ لانے کے بجائے مقامی سطح پر ان کی تربیت کا پروگرام شامل ہے۔ فرانس کی مسلمان کمیونٹی میں بھی بیشتر لوگ اس اقدام کے حامی ہیں۔
مسلمانوں کی رائے تقسیم:صدر میخواں کے اس حالیہ منصوبے سے متعلق فرانس کے مسلمانوں کی رائے تقسیم ہے۔ بعض اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ ان کے مذہبی امور کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے یا ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اسلامی اداروں کو الگ کردیا ہے لیکن کسی مسیحی ادارے یا تنظیم سے متعلق تبدیلیوں کی جرات نہیں کرسکتی۔پیرس میں بسنے والے 51 سالہ حمود بن بوزید میخواں کے منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس سے مسلم کمیونٹی کے ہر طبقے کو نمائندگی ملے گی کیوں کہ مذہبی علما ہر مسلم شہری کی ترجمانی نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں اس لیے فرانس میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کے اظہار کے لیے فورم کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ان کا کہنا ہے کہ میں چاہتا فرانس میں مسلمانوں کی بات ایک شہری کے طور پر سنی جائے، مسلمان کے طور پر نہیں۔
مسلمانوں کی دیرینہ شکایت:روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک فرانس کے مسلمانوں کی دیرینہ شکایت ہے جس کا دائرہ پولیس کی جانب سے شناختی دستاویزات کے مطالبے سے لے کر ملازمتوں میں امتیاز تک پھیلا ہوا ہے۔جب بھی فرانس میں کوئی شدت پسندانہ کارروائی ہوتی ہے تو فرانس کے مسلمان تشدد کی مذمت اور اس سے لاتعلقی کے اظہار کے لیے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔گزشتہ برس فرانس کی پارلیمنٹ نے مساجد، اسکولوں اور اسپورٹس کلب کی نگرانی کڑی کرنے کے لیے ایک قانون منظور کیا تھا۔اس قانون کے بارے میں حکومت کا مؤقف تھا کہ فرانس کو اسلامی شدت پسندی سے محفوظ بنانے اور خواتین کے حقوق کے احترام کو فروغ دینے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔ اس قانون کے تحت فرانس میں کئی مساجد اور کمیونٹی گروپس کو بند کیا جاچکا ہے۔