سر جھکا کر کام کیے جانا ترقی کے لیے کافی نہیں بلکہ تھوڑی سی ’سیاست‘ بھی ضروری ہے
لندن،اکتوبر۔ برطانوی مصنفہ کیٹ لسٹر پر حالیہ ایام میں ایک حقیقت آشکار ہوئی جو دوسرے لوگوں کے دل کو بھی لگی۔انھوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا: ’آپ کی عمر کیا تھی جب آپ کو احساس ہوا کہ زندگی میں کامیابی کا آپ کا ابتدائی منصوبہ یعنی سخت محنت، اچھا رویہ اور اس امید پر ضرورت سے زیادہ کام کہ کوئی خود اس کا نوٹس لے کر آپ کو اس کا اجر دے گا، ایک بکواس منصوبہ تھا۔‘شاید آپ کو لگے کہ یہ کسی دل جلے شخص کا سوال ہے لیکن اس سوال نے بہت سے دلوں کو چھو لیا۔ چار لاکھ لوگوں نے برطانوی مصنفہ کے اس ٹوئٹر پیغام کو لائیک کیا یا اسے آگے بڑھایا۔جیف شینن ایک ایگزیکٹو کوچ ہیں اور کتاب (Hard Work is Not Enough) یعنی ’صرف سخت محنت ہی کافی نہیں‘ کے مصنف ہیں۔جیف شینن کا کہنا ہے کہ بچپن سے ہمیں جو سبق پڑھایا جاتا ہے کہ سخت محنت آپ کو زندگی میں کہیں بھی پہنچا سکتی ہے، ٹھیک نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ سخت محنت آغاز میں تو آپ کو کریئر میں قدم جمانے میں یقیناً مدد کرتی ہے لیکن یہ آپ کو ٹاپ پر لے جانے کی ہرگز ضامن نہیں۔’ایک وقت آپ اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اس سطح پر تو ہر کوئی سخت محنت کرتا ہے کیونکہ آپ سے محنت اور مہارت کی توقع کی جاتی ہے لیکن یہ ترقی کے زینے پر قدم رکھنے کے لیے کافی نہیں۔‘ہاں یہ نظام کی ’ناانصافی‘ ہے جو آپ کی سخت محنت کی قدر نہیں کرتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے جسے ملازمین کو سمجھنے کی ضرورت ہے خاص طور ان کو جو ترقی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ نہیں پا رہے۔ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے آپ کو صرف کام پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیٹ لسٹر کی طرح اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھی جن کی صلاحیتیں آپ جیسی ہی ہیں یا قدرے کم ہیں وہ تو آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ آپ کا کریئر جمود کا شکار ہو چکا ہے۔آپ جب اس امید پر سخت محنت میں مصروف ہیں کہ کوئی آپ کی کوششوں کو تسلیم کرے گا تو آپ کو مایوسی ہو گی اور ایسے لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں جو اپنے کریئر کو آگے بڑھانے کے لیے سیاست کرنے پر بھی مائل ہوں۔جیف شینن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آپ کی محنت کو تسلیم نہیں کر رہا تو ایسی محنت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپنی محنت کو کامیابی میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں۔
تیارا ٹریپ:کارل فروح لنگر امریکی کمپنی ’نیگوشیٹنگ ویمن‘ کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سخت محنت کی اہمیت ہے لیکن اس امید پر سخت محنت کیے جانا کہ کوئی خود آپ کی کوششوں کا نوٹس لے گا یہ نقصان دہ رویہ ہے۔کارل فروح لنگر اس رویے کو تیارا ایفیکٹ (تاج پوشی) کا نام دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ بہت محنت کرتے ہیں اور بہت شاندار نتائج لاتے ہیں اور پھر امید کرتے ہیں کہ متعلقہ لوگ اس کا نوٹس لیں گے اور آ کر ان کے سر پر تاج پہنائیں گے۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ایسے لوگ جو محنت کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور جب ترقی کا کوئی موقع آتا ہے تو ان کے بارے میں کوئی سوچتا بھی نہیں کیونکہ وہ بھلائے جا چکے ہیں۔یہ معاشرے کی اس تربیت کے خلاف ہے جو بچوں کو پرائمری سکولوں سے دی جاتی ہے کہ محنت اور دھیان سے کام کرنے والے بچے ہی زندگی میں پھلتے پھولتے ہیں۔سکولوں میں تو اساتذہ ایسی صلاحیتوں کی قدر کرتے ہیں مگر پھر وہ بڑے ہو کر اپنے افسران سے بھی یہی توقع کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ بچپن میں پڑھایا گیا سبق درست نہیں۔جیف شینن کہتے ہیں کہ ایک سطح کے بعد صرف سخت محنت کو کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ اس سطح پر ہر کوئی سخت محنت کر رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ دوسرے طریقوں سے افسران بالا کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرواتے تو آپ پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔کارل فروح لنگر کہتی ہیں کہ محنتی مردوں اور عورتوں کو اپنے افسران کی عدم توجہ کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن عورتوں کو اس کا خطرہ زیادہ ہے۔عام طور پر مردوں کے لیے یہ قابل قبول تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کے بارے میں بات کریں۔ ’اگر کوئی عورت اپنی کامیابیوں کی باتیں کرے تو انھیں شیخی باز سمجھا جاتا ہے اور انھیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘تو آپ اس گھسے پٹے رویے سے خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے مردوں اور عورتوں کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے کام کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں اور اپنی کارکردگی کے سالانہ ریویو کا انتظار نہ کرتے رہیں۔فروح لنگر کہتی ہیں کہ کچھ کمپنیوں اور تنظیموں میں ورکروں کو سال کا آخر تک اپنے کارکردگی کے جائزے کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔لیکن سال ایک لمبا عرصہ ہے۔ ’آپ ایک سال تک اس کا انتظار نہیں کر سکتے۔‘فروح لنگر کا مشورہ ہے کہ ورکروں کو اپنے کام کے حوالے سے اپنے حکام بالا کو تواتر کے ساتھ آگاہی فراہم کرتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک مختصر سی ای میل کی صورت میں ہو سکتا ہے جس میں وہ بلٹ پوائنٹس کی شکل میں اپنی کامیابیاں گنوا سکتے ہیں کہ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے کمپنی کے فائدے میں کیا کیا ہے اور کمپنی کی کتنی بچت کی ہے۔لیکن ایسا کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ کہتی ہیں کوئی بھی روزانہ ایسی باتیں نہیں سننا چاہتا لیکن اگر الفاظ کے چناؤ میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے کہ ’میری ٹیم‘ نے اور ’میں نے‘ یہ کیا۔ اس طرح نہ صرف آپ اپنی کارکردگی بتا دیتے ہیں بلکہ کامیابی میں اپنی ٹیم کو بھی شریک کرتے ہیں۔آپ اپنی کارگزاری کن الفاظ میں اپنے سے اوپر لوگوں تک پہنچاتے ہیں، اس کی بہت اہمیت ہے۔ کوئی بھی مینیجر پسند نہیں کرے گا کہ اگر آپ اسے روزانہ اپنی شان میں قصیدے سناتے رہیں لیکن اگر یہ بات اس انداز میں بتائی جائی کہ ’صرف آپ کو آگاہ رکھنے کے لیے‘ کے لیے یہ ای میل بھیج رہا ہوں تو اس کا اچھا اثر ہو سکتا ہے۔دفاتر اور صنعتوں میں ترقی حاصل کرنے کے لیے آپ کی اہلیت ہی کافی نہیں۔ آپ کو آگے بڑھنے کے لیے آپ کا ایک ایسا شخص ہونا ضروری ہے جسے لوگ پسند کریں اور یاد کریں۔جیف شینن کہتے ہیں کہ ’اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا اثر و رسوخ ہو تو پھر ضروری ہے کہ لوگوں کو آپ پر ایسا اعتماد ہو جیسا اس امیدوار پر ہوتا ہے جس کی وہ حمایت کرتے ہیں۔‘چنانچہ ترقی کے زینوں پر چڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نہ صرف ایک اچھے ورکر ہوں بلکہ تھوڑے سے سیاستدان بھی ہوں۔فروح لنگر کہتی ہیں کہ آپ کو ایک لیڈر کے طور پر نظر آنا چاہیے۔’آپ کی سطح پر لوگ آپ کو پسند کریں، آپ سے اوپر لوگ، یا آپ سے نیچے لوگ بھی آپ کو پسند کریں۔ اس معاملے پر ہونے والی ریسرچ کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جنھیں پسند کیا جاتا ہے ان کے کام کا معیار آپ جیسا ہونے کے باوجود ان کی ترقی کے امکانات آپ سے زیادہ ہوتے ہیں۔‘اور اسی میں ایک غیر منصفانہ سچائی پنہاں ہے۔ آپ اور آپ کے دفتری ساتھی کی مہارت اور کام کرنے کا طریقہ اگر ایک جیسا ہی ہے لیکن اگر وہ دوستیاں بنانے اور لوگوں کو متاثر کرنے پر وقت خرچ کرتا ہے تو اس کی کامیابی کے امکانات آپ سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ افسران بھی انسان ہیں اور ان کے لیے ایسے لوگوں کی حمایت کرنا ایک قدرتی امر ہے۔لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ آپ اپنے کام کے مقام پر اپنے سیاسی سرمایے میں اضافہ کر لیں۔ اس کے لیے کچھ بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ہو گا۔آپ اپنے کام کے مقام پر صرف اپنے ساتھیوں پر توجہ دے کر ہر دلعزیز ہو سکتے ہیں۔ ’آپ کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفتر کے باہر کیسے جڑ سکتے ہیں۔‘فروح لنگر کہتی ہیں کہ کوئی ایسا مشغلہ یا شوق جو آپ کے ساتھیوں کا بھی ہو۔ مثال کے طور اگر آپ کو باغبانی پسند ہے اور مجھے باغبانی پر کوئی اچھا آرٹیکل ملتا ہے تو میں آپ کو فاورڈ کر دوں گی۔ یہ بہت آسان ہے لیکن اس طرح آپ مجھے زیادہ پسند کریں گے۔‘اس طرح کی گرمجوشی شاید موقع پرستی لگے لیکن اس سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی اور یہ آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔ایسے لوگ جو اپنے کام کو لوگوں سے میل ملاپ پر ترجیح دیتے ہیں انھیں آگے بڑھنے کے لیے شاید اپنی ترجیحات میں کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ فروح لنگر کہتی ہیں اپنے کریئر کی دیکھ بھال کرنا ملازم کی اپنی ذمہ داری ہے۔’اگر آپ کریئر کا خیال نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا اس کا خیال نہیں کرے گا۔‘