آپ کے بچے صرف بچے نہیں قوم کی امانت ہیں
جمیل اخترشفیق
ایک جگہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بات ہورہی تھی، الگ عمر کے کچھ پڑھے لکھے تو کچھ بغیر پڑھے لکھے گارجین بیٹھے ہوئے تھے،سب کی الگ الگ شکایتیں تھیں، الگ الگ مسائل تھے،مختلف قسم کے درد تھے،کچھ لوگوں نے اپنے بچوں کی نااہلی اور نافرمانیوں کا پورا پٹارہ کھول رکھا تھا تو کچھ لوگ ایسے آپے سے باہر ہورہے تھے گویا اگر اسی عالم میں ان کا بچہ سامنے آجائے تو وہ اس کا گلا گھونٹ کر رکھ دیں اِسی بیچ سبھی لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے میرے منہ سے ایک جملہ نکل گیا دیکھیے آپ لوگ اپنے اپنے بچوں کی شکایتیں کر رہے ہیں، اپنے اپنے درد کا اظہار کر رہے ہیں لیکن بہت معذرت کے ساتھ ایک بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اگر ببول کا پیڑ لگائیں گے تو اُس سے آم کا پھل کبھی نہیں نکلے گا اگر بچے بگڑ جاتے ہیں تو اس کے صد فیصد وہی ذمہ دار نہیں ہوتے اُس میں کہیں نہ کہیں والدین کا قصور بھی ہوتا ہےمیرے اس جملے پہ ایک ٹوپی کُرتا میں ملبوس بظاہر عالمِ دین نظر آنے والے 55 سال کے قریب عمر کے ایک صاحب بہت بُری طرح مجھ پہ برس پڑے کہنے لگے: کیا بات کرتے ہیں صاحب، کون ماں باپ نہیں چاہتا کہ اُس کے بچے پڑھ لکھ کر بڑے بنیں، اپنے خاندان کا نام روشن کریں، اونچے سے اونچے مقام تک پہونچیں،دنیا بھر کی نعمتیں اُن کے دامن میں پناہ لیں،لیکن کچھ بچے پڑھنا ہی نہیں چاہتے، آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتے تو اُس میں بھلا کوئی گارجین کیا کرے؟ جب اُن کا خلافِ توقع اُچھال مارنے والا غصہ کچھ ہلکا پڑا تو میں نے بصد احترام عرض کیا: چچا! آپ کی بات بلکل صحیح ہے لیکن جن کاموں کا تعلق عمل سے ہوتا ہے اُنہیں صرف تصورات،احساسات کی شدت یا سینے میں مچلتے خوابوں کے ذریعے پایہ تکمیل کو نہیں پہونچایا جاسکتا، ابھی جس طرح آپنے اخلاق کی تمام تر سرحدوں کو توڑ کر اپنے اندر کی چبھن کا بیلاگ اظہار کیا ہے، اُس سے صاف لگتا ہے آپ اپنے انفرادی مسئلے کو اجتماعی مسئلے کا روپ دینا چاہتے ہیں، مجھے آپ کی نیت اور خلوص پہ کوئی شک نہیں، میں یہ بھی نہیں کہہ سکتاکہ آپنے اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو سنوارنے کے لیے کوششیں نہیں کی ہوں گی لیکن اس بات کو بہرصورت تسلیم کیجیے کہ کہیں نہ کہیں ہماری کوشش کی رفتار دھیمی پڑتی ہے، ہماری جدوجہد کی گرمی کم ہوتی ہے، ہمارے عمل کا چراغ جب مدھم ہوتا ہے تب ہی اس کا فائدہ اُٹھاکر شیطان ہمارے بچوں کے ذہنوں پہ اپنا قبضہ جمالیتا ہے جس کے سبب اُن کا مستقبل خراب ہوکر رہ جاتا ہے۔
میں اپنی بات چونکہ بہت خود اعتمادی کے ساتھ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رکھ رہا تھا اس لیے بہت جلد ان کا آسمان پہ چڑھا ہوا غصہ زمین پر آگیا اور وہ نرم پڑگئے کچھ دیر بعد جب وہ چلے گئے تو پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ دھتکار پھٹکار کر رکھا، پڑھنے کے زمانے میں جب جب اُنہیں اخراجات کی ضرورت محسوس ہوئی انہوں نے اُنہیں ذلیل کیا، گالم گلوج کرتے رہے جس کے سبب ان کے بچوں نے تنگ آکر پڑھائی چھوڑ دی اور کام کاج میں لگ گئے، اُن کے اتنا گرم ہونے کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ کچھ روز قبل ہی ان کے ایک جوان بیٹے نے شراب کے نشے میں سڑک پر خوب اُن کی عزت کا تماشا بنایا، جس کی وجہ سے وہ بُری طرح اندر سے جھُنجلائے ہوئے ہیں۔
کچھ ہی دنوں بعد ایک بار پھر اُن سے ملاقات ہوئی تو مسکراتے ہوئے ملے،علیک سلیک سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پانچ چھ سال کے دوبچے کا تعارف کراتے ہوئے کہا: یہ دونوں میرے پوتے ہیں، بہت بیباک ہیں، فون پر جب اِس کا باپ اس کو گالی دیتا ہے تو یہ بھی پلٹ کر گالی دیتا ہے، کسی کو چھوڑتا نہیں ہے، یہ بول کر انہوں نے بڑا زور دار قہقہہ لگایا اور مجھ سے بچوں کی اِس بیباکی پہ شاید داد کے منتظر تھے،میں ان کی بات سن کر خاموش ہوگیا ابھی مشکل سے دو تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ میں نے دیکھا وہ کھینی بنا رہے ہیں، اُنہیں کھینی بناتا دیکھ کر اُن کے ایک چھ سال کے پوتے نے دیہاتی لہجے میں کہا: دادا کھینی مجھے بھی چاہیے جسے سن کر انہوں نے اُسے پہلے تو بھدّی سی گالی دی اور کہا: رُک جا، بناکر دیتا ہوں اور انہوں نے آخر کار کھینی بناکر اُس فرشتہ صفت معصوم بچے کے ہاتھ میں تھما ہی دیا،میرے لیے یہ ناقابلِ یقین منظر تھا،کھینی دینے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا: دیکھتے ہیں اِس کمبخت کی جرائت ذرہ برابر بھی جھجھکتا نہیں ہے، بہت تیز ہے، ان کا یہ جملہ سن کر میرے لبوں پہ افسوس میں ڈوبا ہوا تبسم تیرگیا اور میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا:اپنے پوتوں کے ساتھ آپ کا سلوک دیکھ میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ آپنے اپنے بیٹوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا،پھر بھی آپ کو شکایت ہے کہ آپ کے بچے نافرمان ہوگئے؟ آپ کے طور طریقے پہ جتنا ماتم کیا جائے کم ہے،میرے خیال سے آگے چل کر زندگی میں اپنے بچوں کی وجہ سے آپ کو جتنی بھی ذلتیں اُٹھانی پڑیں گی اُسے ایک طرح سے آپ کی بے انتہا غفلت اور لاپرواہی کی سزا کہی جائے گی،میں نے محسوس کیا کہ میری گفتگو ان پہ گراں گزر رہی ہے اور وہ اندر ہی اندر شرمندگی کے احساس سے پانی پانی ہو رہے ہیں ۔یہ عجیب زندگی کا افسوسناک تماشا ہے جسے دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے، دل خون کے آنسو روتا ہے اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے گارجین کی لاپرواہی دیکھ کر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے، جب بچے بہت زیادہ توجہ کے محتاج ہوتے ہیں، شفقت کے مستحق ہوتے ہیں، بہت زیادہ اُنہیں دیکھ ریکھ کی ضرورت ہوتی ہے تب تو پڑھے لکھے والدین بھی اپنے نونہالوں کے ہاتھوں میں روپیوں کے چند نوٹ تھماکر اُن سے بہتر کارکردگی اور نیک نامی کی خلافِ فطرت امید پال لیتے ہیں اور جب ساری کھوکھلی تدبیریں بیکار چلی جاتی ہیں تو اپنا سر پیٹنا شروع کر دیتے ہیں، اور لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ ان کے بچوں نے ان کی ناک کٹوادی وغیرہ وغیرہ….۔
یاد رکھیے زندگی حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر،وقت پہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر ادا کرنے کا نام ہے، معمولی پیڑ پودوں سے بھی جب ہم مستقبل میں فائدے کی امید رکھتے ہیں تو صبح وشام مستقل اُن کی ضرورتوں کا اچھی طرح خیال رکھتے ہیں،اس کی خوب اچھی طرح نگہبانی کرتے ہیں، جو چیزیں انہیں سرسبزوشاداب بنا سکتی ہیں اُنہیں اکٹھا کرنے میں اپنی پوری انرجی جھونک دیتے ہیں لیکن وہ بچے جو صرف ہماری اولاد ہی نہیں بلکہ قوم کی امانت ہوتے ہیں، الگ الگ کلچر اور مختلف تہذیبوں کے بیچ سے آئے ہوئے ہاسٹل میں رہ کر پڑھائی کرنے والے بچوں کے بیچ اُنہیں چھوڑ کر، فیس کے نام پہ کچھ پیسے خرچ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے وقت کے غازی بن جائیں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ یہ مت بھولیے کہ کسی بھی فیکٹری کا کاریگر چاہے جتنا ماہر اور ذہین ہو مالک سے زیادہ اس کی ترقی کے لیے کبھی فکر مند نہیں ہوسکتا۔