پی ایس ایل کھیل کر خود کو پہلے سے کافی بہتر بیٹر محسوس کر رہا ہوں: ٹم ڈیوڈ
کراچی،فروری۔پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) ٹیم ملتان سلطانز میں شامل جارح مزاج بیٹر ٹم ڈیوڈ کہتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کھیل کر وہ خود کو پہلے سے کافی بہتر بیٹر محسوس کررہے ہیں، پچھلے سال لاہور قلندرز کے ساتھ ڈبیو میں زبردست اعتماد ملا اور اس سال ملتان سلطانز کے ساتھ بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔25 پچیس سالہ ٹم ڈیوڈ سنگاپور کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے ہیں اور دنیا بھر کی لیگز میں نظر آنے والے ایسوسی ایٹ ملکوں کے چند ایک کھلاڑیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ گوکہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ اپنے پیدائش کے ملک کی جانب سے کھیلتے ہیں مگر رہائش آسٹریلیا میں اختیار کی ہوئی ہے جہاں وہ بگ بیش لیگ میں باقاعدگی سے نظر آتے ہیں۔انہیں پہلی بار آسٹریلیا سے باہر فرنچائز کرکٹ کھیلنے کا موقع 2021 میں اس وقت ملا جب پاکستان سپر لیگ کے چھٹے ایڈیشن کے بقیہ میچز ابوظبی شفٹ ہوئے اور ٹم ڈیوڈ کو لاہور قلندرز نے پک کرلیا۔ تاہم وہ اس سال جارح مزاج بیٹر کو برقرار نہ رکھ سکے اور ملتان سلطانز نے موقعے کا فائدہ اٹھاکر پلاٹینم میں وائلڈ کارڈ کے طور پر ان کا انتخاب کرلیا۔ٹم دیوڈ نے اسلام آباد کیخلاف میچ میں 71 رنز کی اننگز کھیل کر اس فیصلے کو درست بھی ثابت کیا۔جیو نیوز کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کرنا ان کیلئے کافی بڑا موقع تھا جس کا ان کے کیریئر پر بھی گہرا اثر پڑا، پی ایس ایل کھیل کر ان کو مختلف اور سخت کنڈیشنز میں کھیلنے کا اعتماد ملا۔ اس بار ملتان سلطانز کے ساتھ شامل ہونا بھی اچھا موقع ہے جہاں ایک مضبوط بیٹنگ لائن کے ساتھ کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، یہ سیزن کافی شاندار جارہا ہے، ابتدائی میچز میں ہی اتنا کچھ سیکھ لیا ہے کہ لگ رہا ہے کہ پہلے سے بہتر بیٹر بن چکا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ میں بولنگ کا معیار کافی سخت ہے اور بطور غیر ملکی بیٹر جو یہاں کی کنڈیشنز سے ہم آہنگ نہیں، یہاں کھیل کر خود کو سخت چیلنج کیلئے تیار کرنے کا موقع مل رہا ہے۔بگ بیش میں ہوبارٹ ہریکینز کی نمائندگی کرنے والے ٹم ڈیوڈ نے گزشتہ سال پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کے بعد کیریبئن پریمیئر لیگ میں سینٹ لوشیا کنگز اور آئی پی ایل میں بنگلور کی فرنچائز کی نمائندگی کی تاہم وہ پاکستان سپر لیگ سے کافی متاثر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل میں ہر دوسرا بولر 145 کی رفتار سے گیند کرا رہا ہوتا ہے جس کا سامنا کرنا ایک چیلنج ہے لیکن اس چیلنج کا سامنا کرکے انہیں سیکھنے کو بہت کچھ مل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ویسے تو یہ میرا دوسرا ہی سیزن ہے لیکن مجھے اس لیگ کے معیار کا کافی اندازہ ہوگیا ہے، مجھ سے زیادہ میچز کھیلنے والے پلیئرز بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہاں فاسٹ بولرز بہت زبردست ہیں۔‘ایک سوال پر سنگاپو ر نیشنل ٹیم کے کھلاڑی نے کہا کہ اگر مختلف لیگز کھیلنے کا موقع ملا تو اس سے کرکٹ بہتر ہوگی لیکن یہ موقع حاصل کرنے کیلئے ایسوسی ایٹ ملکوں سے تعلق رکھنے والے کرکٹرز کو بھی اپنا معیار ثابت کرنا ہوگا، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں چند ایک سامنے آئے تھے، امید ہے دنیا بھر کی لیگز میں ایسے پلیئرز کو موقع ملے گا۔سنگاپور کی ٹیم کو اس سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے گلوبل کوالیفائرز میں شرکت کرنا ہے مگر ٹم ڈیوڈ سمجھتے ہیں کہ ٹیم کو اس طرح تیاری کا موقع نہیں مل سکا جو موقع ان کی مخالف ٹیموں کو میسر تھا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ کووڈ کی وجہ سے سنگاپور کی ٹیم زیادہ میچز نہیں کھیل پائی اور پلیئرز صرف ٹریننگ سیشنز تک محدود رہے۔انہوں نے کہا کہ سنگاپور کو مزید کرکٹ ملنی چاہیے، بڑی ٹیموں کے ساتھ تو سیریز ممکن نہیں کیوں کہ ان کے کیلنڈر مصروف ہیں، لیکن خطے کی دیگر بہتر ایسوسی ایٹ ٹیموں کے ساتھ میچز ملنے چاہئیں۔انہوں نے پی ایس ایل ٹیم ملتان سلطانز کے ماحول کی تعریف کی اور کہا کہ محمد رضوان شاندار لیڈر ہیں جو ہر کسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ عمران طاہر جیسا کھلاڑی بھی ٹیم میں موجود ہے جو نہ صرف ایک اچھا کرکٹر بلکہ ایک اعلیٰ اینٹرٹینر بھی ہے۔انہوں نے اپنے ساتھی شاہنواز داہانی کی بھی تعریف کی اور کہا کہ شاہنواز داہانی بہت زبردست کیریکٹر ہے، ٹیم کا سب سے پرجوش رکن ہے اور ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ہے۔ ٹم ڈیوڈ نے انکشاف کیا کہ داہانی ان کو اردو سکھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔داہانی کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’ایسا کھلاڑی ٹیم میں ہو تو بہت اچھا لگتا ہے ، خاص طور پر جب آپ کا موڈ ڈاؤن ہو یا کارکردگی خراب ہو تو داہانی جیسا کردار آپ کا موڈ تبدیل کرنے اور آپ کو مسکرانے پر مجبور کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ پی ایس ایل میں ان کے اہداف کیا ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کی بس یہ ہی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیکھیں، ٹی ٹوئنٹی میں آپ اعداد و شمار کی بنیاد پر اہداف نہیں بناسکتے اور آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کب صورتحال ایسی ہو کہ آپ ٹیم کی جیت میں کردار ادا کرسکیں اور اگر میں نے ملتان کی جیت میں کردار ادا کرلیا تو اطمینان ہوگا۔