ملالہ کی امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات، افغان خواتین کے حقوق کا معاملہ اٹھایا
دسمبر۔لڑکیوں کے تعلیمی حقوق کے لئے کام کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن ملالہ یوسف زئی نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن سے ملاقات کی ہے اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت کے حق کے لیے ضروری اقدامات پر زور دیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ میں بند کمرے کی ملاقات سے پہلے امریکی وزیر خارجہ نے صحافیوں کے سامنے ملالہ یوسفزئی کو خوش آمدید کہتے ہوئے تعلیم کے میدان میں مساوات کے لئے ان کے کام کو قابل تقلید قرار دیا۔سیکرٹری بلینکن کا کہنا تھا کہ امریکا اور صدر بائیڈن کے لئے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اہم معاملہ ہے اور ملالہ جس طرح اپنے کام سے تبدیلی لا رہی ہیں اور نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لئے راہ ہموار کر رہی ہیں وہ مشعلِ راہ ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس مقصد کے لئے آج ملالہ ان کے سامنے کیا تجاویز پیش کریں گی۔اس موقع پر گہرے نیلے رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس ملالہ نے سیکریٹری بلینکن کا شکریہ ادا کرتے ہی انہیں یاد دلایا کہ کیونکہ ابھی ہی تعلیم کے حوالے سے خواتین کے لئے مساوی مواقع کی بات کی گئی ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ افغان خواتین اور لڑکیوں سے ان کا یہ حق چھن چکا ہے۔ملالہ نے بتایا کہ افغان لڑکیاں اس وقت کالج یونیورسٹی سطح کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت افغان خواتین اور کارکنوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور ان سب کا یہی کہنا ہے کہ ملازمت اور تعلیم ان کا بنیادی حق ہے۔لڑکیوں کے تعلیم پر کام کرنے پر امن کا نوبیل انعام پانے والی ملالہ نے سیکریٹری بلینکن سے ملاقات کے دوران ایک 15 سالہ افغان لڑکی ستودہ کا خط، جو وہ اپنے ساتھ لیکر آئیں تھیں، با آواز بلند پڑھا۔خط میں درج تھا کہ "جتنا طویل عرصہ تعلیمی درسگاہوں کے دروازے خواتین پر بند رہیں گے، ایک بہتر مستقبل کے لئے ہماری امیدیں اتنی ہی دم توڑتی جائیں گی۔ امن اور تحفظ کے لئے خواتین کی تعلیم اہم ہے۔ خواتین کے تعلیم جاری نہ رکھنے کا اثر افغانستان پر بھی پڑے گا۔ بطور ایک لڑکی، بطور ایک انسان میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میرے بھی حقوق ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے انسان کی طرح امن و امان، تعلیم حاصل کرنا اور کھیلنا افغان شہریوں کا حق ہے”.ملالہ نے اس موقعے پر زور دیا کہ امریکہ، اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ بچیاں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو لوٹ سکیں، خواتین ملازمت پر واپس جا سکیں اور انسانی بنیادوں پر اس مقصد کے لئے ضروری امداد فوری فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔یاد رہے کہ بین الاقوامی سطح پر افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتین کی ملازمت کرنے اور تعلیم کی آزادی سلب کئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔1996 سے 2001 کے دوران افغانستان میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں بھی خواتین کو بغیر محرم گھر سے باہر نکلنے کی آزادی نہیں تھی نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔دوسری جانب طالبان نے اس بار پہلے کے مقابلے میں نسبتاً نرم طرز حکومت کا عندیہ دیا ہے اور بعض صوبوں میں سیکنڈری اسکول کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔