کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون سے کیسے نمٹا جائے؟
نیویارک،دسمبر۔صحت کے ماہرین کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون سے متعلق اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ قسم زیادہ تیزی سے پھیلے اور اس کے خلاف موجودہ ویکسین سے حاصل کردہ قوت مدافعت کم پڑ جائے۔ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومکرون کے سامنے آنے کی وجہ کرونا وائرس کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ ہے۔امریکی ریاست میری لینڈ میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر فہیم یونس کا کہنا ہے کہ لوگوں نے شاید کبھی یہ نہیں سنا ہو کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا یا تائیوان سے وائرس میں کوئی میوٹیشن یعنی تبدیلی سامنے آئی ہو کیوں کہ ان ممالک میں وائرس پر کنٹرول ہے۔چند روز قبل جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی اس نئی قسم کے انکشاف کے بعد دنیا کے مختلف ممالک نے جنوبی افریقہ پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں جب کہ کئی ممالک نے ماسک سمیت دیگر احتیاطی تدابیر دوبارہ نافذ کر دی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام یعنی ویریئنٹس جنوبی افریقہ، جنوبی امریکہ، بھارت اور برطانیہ سے نکلی ہیں۔ کیوں کہ وہاں کیسز زیادہ ہیں اور وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ”جب جب وائرس تیزی سے پھیلے گا اس کی نئی قسم کا خطرہ بڑھ جائے گا۔”خیال رہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم جسے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ‘اومکرون’ کا نام دیا ہے وہ گزشتہ ماہ سامنے آئی ہے اور اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ کرونا کی دیگر اقسام سے مختلف ہے کیوں کہ اس میں میوٹیشنز یعنی تغیرات زیادہ ہیں۔ان کے بقول ”یہ وائرس ایک بال کی طرح ہے۔ اس میں سے نکلی نوکیلی چیزیں اسپائک پروٹین کہلاتی ہیں۔ اس اسپائک پروٹین پر پچیس سے تیس میوٹیشنز ہیں۔”ڈاکٹر فہیم یونس کہتے ہیں کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس نئی قسم کے اصل اثرات آئندہ کچھ ہفتوں میں سامنے آئیں گے۔ کیوں کہ ابھی صورتِ حال زیادہ واضح نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی علامات کے بارے میں مختلف رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس قسم کی ”علامات بھی کرونا کی گزشتہ اقسام کی طرح ہی ہیں، اس میں زیادہ فرق نہیں ہے۔”ڈاکٹر فہیم کے بقول ”اگر آپ کا گلا خراب ہے، بخار، تھکاوٹ، سردرد ہے اور آپ کی ناک بہہ رہی ہے تو آپ کو اپنا کرونا ٹیسٹ کرانا چاہیے۔”وہ کہتے ہیں کہ اس عالمی وبا سے نمٹنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ آپ سائنس پر یقین رکھیں۔ آپ وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ویکسین لگوائیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ سائنس کو نہ مانیں، جس سے وائرس بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ان کے بقول "میں جو روزانہ مریض دیکھتا ہوں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہے۔”ان کا کہنا ہے کہ ”اب ویکسین کی فراہمی بھی مسئلہ نہیں ہے نہ ہی ویکسین کے لیے ڈاکٹر کے نسخے یا پیسوں کی ضرورت ہے۔”ڈاکٹر فہیم کے مطابق جن لوگوں نے ویکسین لگوائی ہو گی ان میں کسی بھی ویریئنٹ کے خلاف لڑنے کے لیے بہتر قوتِ مدافعت ہو گی۔ اس لیے جن لوگوں نے دو ویکسین لے لی ہیں وہ بوسٹر شاٹس لگوائیں۔صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اومکرون کے بعد مزید ویریئنٹس کے سامنے آنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔