جوہری معاہدے سے متعلق ویانا مذاکرات، ایران کے خلاف پابندیوں پر تبادلہ خیال
ویانا،نومبر۔جوہری معاہدہ کے حوالے سے عوامی طور پر ایران نے سخت موقف کا اظہار کیا ہے تاہم زیادہ تر شرکاء کو امید ہے کہ پیر کے روز شروع ہونے والی بات چیت کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا اور 2015 کا جوہری معاہدہ بحال ہو سکتا ہے۔سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت پانچ ماہ کے تعطل کے بعد پیر 29 نومبر کو ویانا میں دوبارہ شروع ہوئی۔ بات چیت دو گھنٹے سے کچھ زیادہ دیر تک جاری رہی۔ پہلے روز کی بات چیت کے بعد یورپی یونین، ایرانی اور روسی سفارت کاروں نے مثبت نتائج کی امید ظاہر کی۔سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان اس جوہری معاہدے کو بچانے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے جس سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو یک طرفہ طور پر الگ کرلیا تھا۔ مذاکرات میں شامل مغربی ملکوں کے نمائندوں نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا۔مذاکرات کے پہلے دن کے اختتام کے بعد اس کی صدارت کرنے والے یورپی یونین کے نمائندے اینریکے مورا نے کہا، میں نے آج جو کچھ دیکھا اس کے حوالے سے انتہائی پر امید ہوں۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پیلس کوبرگ ہوٹل میں ہونے والی اس بات چیت میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں۔ امریکا بات چیت میں براہ راست شامل نہیں کیونکہ ایران اس کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔خبر وںکے مطابق یورپی یونین، ایران اور روس کے سفارت کاروں نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا ہے حالانکہ ایران نے عوامی سطح پر سخت مؤقف اختیار کر رکھا ہے جس کے بارے میں مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ اس سے بات نہیں بنے گی۔ایران کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کا یہ ساتواں دور تھا جس کے تحت ایران نے امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے جواب میں یورنیم کے افزودگی کے پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔مورا نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایران اپنے اس مطالبے پر قائم ہے کہ اس پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران نے اپریل اور جون میں ہونے والے مذاکرات کے گذشتہ ادوار کے نتائج کو یکسر مسترد نہیں کیا۔مورا کا کہنا تھا، انہوں (ایران) نے تسلیم کر لیا ہے کہ مذاکرات کے پہلے چھ ادوار کام کو آگے بڑھانے کے لیے اچھی بنیاد ہے۔ بلاشبہ ہم ایران کی نئی انتظامیہ کے نئے سیاسی تحفظات کو مذاکرات میں شامل کریں گے۔ مذاکرات میں شامل روس کے نمائندے میخائل الیانوف نے ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ مذاکرات خاصی کامیابی کے ساتھ شروع ہوئے۔ دوسری طرف اعلیٰ ایرانی مذاکرات کار علی باقری کنی سے جب صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا وہ پر امید ہیں تو انہوں نے جواب دیا، ہاں میں ہوں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایران مذاکرات کو اسی مقام سے دوبارہ شروع کرنے پر متفق ہو گیا جہاں وہ جون میں ان سے الگ ہوا تھا، جو مغربی ملکوں کا مطالبہ تھا، یا پھر یہ کہ مذاکرات سے پر امید ہونے کا جواز ابھی بنتا ہے یا نہیں۔ایک یورپی سفارت کار نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی اپنے موقف پر قائم ہیں اور بعض اوقات ان کا موقف سخت ہو جاتا ہے جو بمشکل ہی حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورت حال اس وقت واضح ہو گی جب منگل کو پابندیوں اور بدھ کو جوہری معاملات پر تفصیلی بات چیت ہو گی۔امریکا کا کہنا ہے کہ ایران کے حالیہ اقدامات جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔خیال رہے کہ ایران جوہری مذاکرات جون میں نئے صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد معطل ہو گئے تھے۔ رئیسی مغربی ممالک کے خلاف سخت موقف کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم یہ مذاکرات ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ طور پر ہونے والی موثر بات چیت ہے اور دوسرے فریق بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے ایسے مطالبات پیش کیے ہیں جسے امریکا اور یورپی سفارت کار غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔ایران نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکا اور یورپی یونین 2017 سے عائد تمام پابندیاں بشمول وہ پابندیاں جن کا تعلق اس کے جوہری پروگرام کے ساتھ نہیں ہے، انہیں قابل تصدیق انداز میں ختم کرے۔ایرانی اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری کنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن اور اس کے مغربی اتحادیوں کو ضمانت دینی چاہیے کہ مستقبل میں ایران پر نئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ‘مذاکرات کے تمام فریقوں نے ایران کا یہ مطالبہ تسلیم کیا ہے کہ پہلے امریکا کی غیر قانونی اور غیر منصفانہ پابندیوں کے حوالے سے صورت حال واضح ہونی چاہیے اور پھر ہم دوسرے معاملات کو زیر بحث لا کر ان پر فیصلہ کریں گے۔