ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست مقام دینا ہوگا
سفیر مغل اردم-مینڈھر، پونچھ
انسانی تاریخ میں ابتدا ہی سے تعلیمی نظم کو امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی اشاعت میں اختلاف رہا ہے۔انسانی تاریخ پر اگر سنجیدگی سے نگاہ ڈالی جائے تویہ بات دن کے اجالے کی مانند روشن ہو جا ئے گی کہ اس تعلیم نے کتنی بڑی ہستیوں کو جنم دیاہے۔ یونان کی گلیوں میں گھومنے والے سقراط نے جب اس کا بیڑا اٹھایا توافلاطون، ارسطواوردیگر اہم شخصیات پیدا ہوئیں۔جنہوں نے سیاست سے لے کر فلکیات کی دنیا تک انقلاب برپا کر دیا۔جب ملکِ ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی مولاناابوالکلام آزاد جیسی عظیم شخصیتوں نے جنم لیا جن کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن آج کے دورمیں اگر تعلیم پر گفتگو کرنے کے لئے کو ئی دانشور میدان میں آتا ہے تواس کو تعلیم کی موجودہ صورتحال اورتعلیمی نظام کا دردِدل کے ساتھ ماتم کرنا پڑتا ہے۔موجودہ تعلیمی نظام اپنے وجود میں ہولناک قسم کی خامیاں رکھتا ہے جس میں انفراسٹریکچرکی کمی سرِ فہرست ہے۔سرحدی ضلع پونچھ ریاست جموں و کشمیر کا ایک علاقہ کسبھلاڑی بھی تعلیمی زبوحالی کی عکاسی کرتا ہے۔ تعلیمی معاملہ میں یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی عدم توجہی کا شکار ہا۔ یہاں کے مقامی سرپنچ عبدالرشیدنے بتایا کہ "ہمارے یہاں کا ہائر اسکول جوکہ 1918 میں تعمیر ہوا۔ یہاں کہ بچوں کی تعدادکے مطابق یہ ہائی سکینڈری اسکول ہونا چاہیے تھا۔مگر یہ ابھی ہائی اسکول ہی ہے جس میں استادوں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ دیکھا جائے تویہ بہت سارے علاقہ جات کو گھیرتاہے جن میںاوپر نڑول ،ٹوپہ، بھاٹیدار، کسبھلاڑی، پوٹھی ، ٹھیرا اور دیگر پڑوسی علاقے جہاں تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔مگر عہدیداران غفلت کی نیند میں مسرور ہیں۔ جنہیں ان پسماندہ علاقہ جات کی کوئی فکر نہیں۔حالانکہ ضلع ترقیاتی کمشنر سے اس موضوع پر بارہا بات کی مگر ہر بار غیر حقیقی بھروسہ دے کر ٹال دیا کہ اگلے پلان میں ضرور حل نکالیں گے۔مگر لگاتار ہمارے علاقہ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کے اس ہائی اسکول میں اساتذہ کی شدید قلت ہے۔انفراسٹریکچر بھی پرلے درجے کا ہے۔ اب ایسے تعلیمی نظام سے ایک پڑھا لکھا نوجوان اور ترقی یافتہ ملک کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرناایک مجذوبیت کا باعث ہے۔ایک مقامی نوجوان وسیم احمد کے مطابق”کسبھلاڑی کا علاقہ ہر طرح کی عدم توجہی کا شکار ہے۔پانی،بجلی، سڑک وغیرہ مگر تعلیم کے معاملے میں یہ علاقہ ایک صدی پیچھے ہے۔وجہ اسکی یہاں کا اسکولی نظام اوراساتذہ کی کمی ہے۔ مگر اِس سے بھی بڑکر اسکولی عمارتیں ہیں جو کہ مویشی خانوںکی سی ہیں۔ہائی اسکول کسبھلاڑی تو نظر اندازی کا شکار ہے ہی، مگر یہاں کا مڈل اسکول کنگیاں اپنی کہانی خود بیان کرتا ہے ۔چار کمروں پر مشتمل جن میں دو کمرے زلزلے کے باعث گرنے کو ہیں اور بقیہ دو میں ہی کلاسز اور آفس کا کام کیا جاتا ہے۔اسکول کی یہ حالت دیکھ کر عہدیداران نے کمروں کو بند ہی رکھنے کی تلقین کی ہے۔کویڈ۔19کی وباء کے چلتے اگر چہ تعلیمی کام بند ہے مگر دوبارہ بحالی پر کیا ان بچوں کے اسکولی حقوق کی پامالی ہوگی؟ انہوں نے مزید کہا کہ ہمار ے علاقہ عزیز کی تعلیمی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔یہاں کا تعلیمی نظام سیورل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن پر منحصر ہے۔ حکومت نہ تو اسکولی عمارت پر دھیان دے رہی ہے اور نہ ہی ہمارے بچوں کو معیاری تعلیم حاصل ہو رہی ہے۔کہیں استادوں کی قلت ،تو کہیں پر ٹوٹے پھوٹے کلاس روم ،ایک اسکول کا تعلیمی نظام دوسرے اسکول سے ہر لحاظ سے مختلف ہے ۔انفرا سٹریکچر سے لے کراکیڈمک کے معاملات تک ہر چیز اپنے وجود میں اختلاف رکھتی ہے۔ اس تمام صورتحال میں تعلیم جو کہ ہماری بنیادی ضرورت اور ملک میں موجود تمام مسائل کا حتمی حل ہے، وہی انتہائی زبوحالی کا شکارہے”۔اس مسئلہ پر جب زونل ایجوکیشن آفیسررشید احمد سے بات ہوئی توانہوں نے بھی ان ساری کمیوںکا اعتراف کرتے ہوئے مسلہ کے جلد حل نکالنے کی یقین دہانی کرائی۔سلمہ ناز نکہ منجاڑی ایک طالبہ جو سماجی شعور بھی رکھتی ہیں انکا کہنا تھا کہ "ہما را ملک ہندوستان جو کہ ترقی یافتہ ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے، تعلیمی اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔ملک میں تعلیمی نظام میعار کی پستی کی ایک بڑی وجہ طلباء کا نظریہ تعلیم بھی ہے۔ ہندوستان کے زیادہ تر طلبا ء کے نزدیک تعلیم کا اہم مقصد کسی اچھی پوسٹ سے منسلک ہوتا ہے اور اس نظریے میں اہم کردار اسکے والدین اور ہمارا نظام ِتعلیم کرتاہے۔ اور یاد رہے جہاں تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو/اس معاشر ے میں نوکر پیدا ہوتے ہیںرہنما نہیں۔بہر کیف ہندوستان میں تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کیلئے ہر عہدیدار نے اقدام اٹھائے ہیں۔ موجودہ سرکار بھی نئی نئی اسکیمیں لانچ کر رہی ہے۔ مگر حیف ہے کہ زمینی سطح پر ان اسکیموں کا وجود ہی نہیں ملتا۔ ملک میں تعلیم کی نگرانی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتوں کے زیر اثر کی جاری ہے۔ وفاقی حکومت زیادہ تر نصاب کی منظوری اور تحقیق و ترقی میں معاونت کرتی ہے۔ آرٹیکل 21-A کے مطابق ریاست اس بات کی پابند ہے کے 6سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیار کی تعلیم فراہم کی جائے۔مگر ہماری سرکار نے کبھی ہمارے علاقہ جات کے بچوں کی خبر نہیں لی کہ یہ اسکول کیوں نہیں جا رہیں؟ کیا انکو بنیادی حقوق فراہم ہوبھی رہے ہیںیا نہیںوغیرہ وغیرہ؟”وسیم احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ چندسالوں سے ہندوستان میں تعلیمی صورتحال بہتر ہو گئی تھی لیکن گزشتہ سال سے کویڈ۔19کے چلتے تعلیمی نظام بند پڑا ہے۔ جس نے ہندوستان کو پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں جموں کشمیر کے پسماندہ علاقوں کاعالم کیا ہوگا جن کی تعلیم برسوں سے کرونا کا شکار ہے۔ دیگرمقامی لوگوں نے بھی بتایا کہ اس علاقہ کے تقریباً اسکول کمزوری کی حالت میں ہیں۔ تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ وسائل کی بھی قلت ہے۔تعلیم کی اہمیت و افادیت سے یہ لوگ بہت دور ہیں لہذا ہمارے لوگوں میں تعلیم عام کرنے والے مال و اسباب میں بہتری لائی جائے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں تقریباً 62 فیصد بچے اور بچیاں دسویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد بچے پرائمری اور دو کروڑ سے زائد بچے مڈل لیول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی کاوش یہ ہونی چاہیے کہ وہ طلبہ کے اندر تعلیم کا شعور پیدا کر ے اور طلبہ کو اپنی تاریخ کا مطالعہ کروا کر اپنے عظیم ماضی سے روشناس کروائے تاکہ طلبہ میں قومی خدمت کا جذبہ پیدا ہو اور اعمال میں درستگی آئے۔اب یہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست مقام دینا ہوگا۔(چرخہ فیچرس)