بورس جانسن کی سینہ زوری…!
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
برطانوی جمہوریت کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پارٹی سسٹم انتہائی مضبوط ہے اور پارٹی قیادت کے لیے باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ اگرچہ جمہوریت کی یہی شکل کئی دوسرے ممالک میں بھی ہے مگر وہاں پارٹی انتخابات برائے نام ہوتے ہیں اور زیادہ تر پارٹی لیڈرز ایک ہی خاندان سے ’’نامزد‘‘ کیے جاتے ہیں۔ تاہم برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں چونکہ جمہوریت انتہائی مضبوط ہوچکی ہے اس لیے سب کچھ بڑی حد تک مہذب انداز میں چل رہا ہے۔ برطانیہ کے اندر ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ یہاں تقریباً تمام رجسٹرڈ پارٹیاں ہر سال ستمبر، اکتوبر میں اپنی اپنی سالانہ کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔ ان میں کنزرویٹو، لبرل، بری اور اسکاٹش پارٹیوں کی کانفرنسوں کو خاص طور پر فالو کیا جاتا ہے۔ تاہم کنزرویٹو اور لیبر پارٹی کی کانفرنسوں میں عام لوگوں کو بہت زیادہ دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ ان میں یہ پارٹیاں اپنے آئندہ برس کے منصوبے اور مستقبل کی پالیسیاں بیان کرتی ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں میں سے ایک حکومت میں اور ایک مستقبل کی حکمران ہوتی ہے۔ دونوں کے لیڈروں نے اپنے اپنے انداز میں عوام کو اپنی آئندہ پالیسیوں اور رویوں سے آگاہ کردیا ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن کو چونکہ پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل ہے اور اب تک رائے عامہ کے پولز میں انہیں اپنے حریف اور لیبر لیڈر سر کیر اسٹارمر پر12پوائنٹس تک کی برتری حاصل ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی پارٹی کانفرنس سے خطاب اور اس سے قبل اپنے انٹرویوز میں بھی کھل کھلاکر چوکے، چھکے مارے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کو روکنے والا فی الحال کوئی میدان میں نہیں ہے۔ ہاں البتہ وہ اسی صورت میں آئوٹ ہوسکتے ہیں جب وہ خود آئوٹ ہونا چاہیں گے اور کوئی غلط گیند کھیلیں گے، انہوں نے لیبر کانفرنس کے دوران سر کیر اسٹارمر کا انداز تخاطب دیکھ لیا تھا اور باڈی لیونگیج اچھی طرح سمجھ لی تھی۔ لیبر پارٹی کی اس کانفرنس میں نہ تو ٹونی بلیئر تھے جو اپنے جادوائی انداز میں لوگوں کو سحر میں مبتلا کردیتے تھے اور نہ ہی جریمی کوربن تھے جو مشیر کی طرح نڈر ہوکر دھاڑتے تھے اور اپنے مخالفین کے چھکے چھڑا دیتے تھے۔ ان کی کمی کو لیبر کانفرنس میں محسوس بھی کیا گیا اور ایک خاتون نے تو سر اسٹارمر کی تقریر کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ سر کیئر اسٹارمر انتہائی دھمکے اور ؟؟؟؟ انداز سے تقریر کرتے ہیں جبکہ ان کے حریف بورس جانسن جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے سب کچھ ملیامیٹ کردیتے ہیں۔ اس کانفرنس سے قبل اپنے انٹرویوز میں بھی انہوں نے سینہ زوری کرتے ہوئے خود کو برطانیہ کے اندر موجود فیول بحران سے بھی بری الذمہ قرار دے دیا اور یہ وعدہ بھی نہیں کیا کہ یہ بحران مستقل طور پر کب اور کیسے ختم ہوگا۔ مزیدبرآں یہ کہ کرسمس کے دوران آیا برطانیہ میں فوڈ اور دوسری چیزوں کی سپلائی بحال رہے گی اور سپر مارکیٹوں کی شیلفس بھری رہیں گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے بلکہ یہ کہ فیول اور دوسری چیزوں کی سپلائی بحال رکھنا ان کا کام ہے جو کمپنیاں اس کی ذمہ دار ہیں انہوں نے آئل ٹینکرز اور دوسری لاریوں کے ڈرائیور کو اندھا دھند ویزے دینے کی بھی مخالفت کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ برطانیہ کے اندر موجود لوگوں کو اس مقصد کے لیے تربیت دی جائے جبکہ فیول بحران پر قابو پانے کے لیے پہلے ہی فوج کے ڈرائیور کو طلب کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس روایتی موقف کو بھی دہرایا کہ وہ ملک میں اندھا دھند نہیں بلکہ کنٹرولڈ امیگریشن چاہتے ہیں اور یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر موجود لوگ کام کریں۔ انہیں تربیت دی جائے اور تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، یہ باتیں تو بہت اچھی ہیں۔ یہاں پر لوگوں کو کام کرنا چاہیے اور انہیں اتنی تنخواہیں ضرور ملنی چاہیں کہ وہ اپنے گھر کے اخراجات بغیر کسی مدد کے کرسکیں۔ تاہم جب تک یہ سب کچھ ہو نہیں جاتا، اس وقت تک اس ملک کو امیگرنٹس کی ضرورت رہے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک کو بنانے اور چلانے میں امیگرنٹس نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے اور اسے ہمیشہ امیگرنٹس کی ضرورت رہے گی۔ وزیراعظم بورس جانسن کی باڈی لیونگیج سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا بھی یہی خیال ہے کہ ٹوری پارٹی آئندہ انتخابات میں پانچویں مرتبہ ریکارڈ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اسے روکنے کے لیے لیبر پارٹی کو جارحانہ انداز اختیار کرنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے اسے اپنی پارٹی قیادت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا بھی ہوگا۔