الجزائر کے شہریوں کا قتل عام فرانس کے ’ناقابل معافی جرائم‘: ماکروں
پیرس،اکتوبر۔فرانسیسی صدرنے پیرس میں 1961ء میں کیے جانے والے الجزائر کے باشندوں کے قتل عام کے واقعات کو ’ناقابل معافی جرائم‘ قرار دیا ہے۔ ماکروں نے یہ بیان ان خونریز واقعات کے ساٹھ برس پورے ہونے کے موقع پر ایک یادگاری تقریب میں دیا۔ایمانوئل ماکروں ایسے پہلے فرانسیسی صدر ہیں، جنہوں نے پیرس کے نواح میں کولمبس نامی صنعتی شہر میں اس حوالے سے منعقدہ ایک یادگاری تقریب میں حصہ لیا۔ اس موقع پر صدر ماکروں نے الجزائر کے باشندوں کے خلاف خونریز واقعات کے متاثرین کے رشتہ داروں کو بتایا کہ 17 اکتوبر 1961ء کی رات پیرس کے بدنام زمانہ پولیس سربراہ موریس پاپوں کے حکم پر یہ کارروائی الجزائر سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف کی گئی۔
ماکروں کا اعتراف:گرچہ 1961 ء کے ان واقعات کے متاثرین کی صحیح تعداد کبھی واضح نہیں رہی تاہم کئی مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس خونریزی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ صدر ماکروں نے اعتراف کیا کہ تب اس پولیس کریک ڈاؤن میں درجنوں مظاہرین مارے گئے تھے۔ صدر ماکروں کے بقول، ان کی لاشوں کو دریائے سین میں پھینک دیا گیا تھا۔‘‘ فرانسیسی صدر نے ہلاک شدگان کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت بھی پیش کیا۔سترہ اکتوبر 1961ء کو پیرس میں الجزائر سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی بہت بڑی تعداد نے فرانسیسی نو آبادیاتی حکمرانی کے خاتمے اور الجزائر کی آزادی کے حق میں مظاہرے کیے تھے۔ ان مظاہرین کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن بڑا بے دریغ تھا۔دریں اثناء پیرس میں واقع صدارتی رہائش گاہ ایلیزے پیلس کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، صدر ایمانوئل ماکروں نے حقائق پہچان لیے ہیں، جس کے تحت اس رات پیرس پولیس کے سربراہ موریس پاپوں کے حکم پر کی جانے والی کارروائی فرانسیسی جمہوریہ کے لیے اس کے ناقابل معافی جرائم ہیں۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا، اس سانحے پر طویل عرصے سے یا تو خاموشی برقرار رکھی گئی، یا اسے چھپایا یا اس سے انکار کیا جاتا رہا۔‘‘
الجزائر کا موقف:الجزائر کے صدر عبدالمجید تبون نے کہا ہے، تاریخ اور یادداشت سے نمٹنے کے طور طریقوں کیبارے میں ہمیشہ سے تشویش پائی جاتی رہی ہے کہ آیا انہیں متکبر نوآبادیاتی سوچ کے تسلط سے پاک، اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر اور احساس ذمہ داری کے ساتھ نبھایا جائے گا۔‘‘الجزائر کے صدر کے دفتر سے جاری کردہ بیانات میں عبدالمجید تبون کا مزید کہنا تھا، 1961ء کے ہلاکت خیز کریک ڈاؤن نے قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کی ہولناکی کو ظاہر کیا جو اجتماعی یادداشت پر نقش رہیں گے۔‘‘ایک الجزائری باشندے بشیر بن عیسیٰ سعدی نے، جو 1961ء میں پیرس میں ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں صرف چودہ برس کی عمر میں شامل ہوا تھا، اس واقعے کے 60 برس پورے ہونے کے موقع پر ایک بیان میں کہا، تب ہر طرف لاشیں تھیں۔ میں انتہائی خوفزدہ تھا۔‘‘
تاریخی پس منظر:یہ خونریز واقعات دراصل شمالی افریقہ میں پیرس کی نوآبادی کے طور پر الجزائر کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی فرانس کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کوششوں کے آخری برسوں میں رونما ہوئے تھے۔ تب فرانس سے الجزائر کی آزادی کے حامی الجزائری باشندوں نے فرانسیسی سرزمین پر بم حملوں کی ایک مہم بھی شروع کی تھی اور پیرس میں نکالی جانے والی ریلی اسی مقصد کے لیے ایک احتجاجی اجتماع تھی۔1980ء میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ پیرس کے میئر پاپوں دوسری عالمی جنگ میں فرانس پر قابض نازیوں کے ساتھ ملی بھگت سے فرانسیسی یہودیوں کو تلاش کر کے ان کی جبری ملک بدری کی کارروائیوں میں بھی شامل رہے تھے۔ پاپوں کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا مگر بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔