بھوٹان کی خوشی کا راز: ’ہمیں اپنے سے باہر خوشی کی تلاش بند کر دینی چاہیے‘
تھمپو،اکتوبر۔بھوٹان کے رہبر کھیدرپوچین رنپوچے کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی خوشی چاہتا ہے۔ اگرچہ وہ اس کو نہ بھی تسلیم کرے، مگر یہ ہر انسان کا مقصد ہے۔‘بھوٹانی عقائد کے مطابق اپنے پانچویں اوتار میں آنے والے رنپونچے (روحانی استاد) ’خوشی کی جستجو‘ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔انھیں یہ عہدہ 19 سال کی عمر میں 2009 کو ملا تھا اور وہ بھوٹان میں سب سے کم عمر رنپوچے (روحانی استاد) ہیں۔ اب ان کی عمر 31 سال ہے اور وہ گذشتہ 12 برسوں سے دنیا کو بدھ عقائد کے متعلق بتا رہے ہیں اور یہ کہ قطع نظر کسی کے مذہب اور ثقافت کے ان عقائد کو کس طرح روز مرہ کی زندگی میں خوش رہنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔چین اور بھارت کے اقتصادی اور سیاسی پاور ہاؤسز کے درمیان واقع سات لاکھ 60 ہزار سے کچھ زیادہ آبادی والا ملک بھوٹان اپنی قومی ترقی کے غیر روایتی اقدام کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، اور وہ ہے اس کی مجموعی قومی خوشی (جی این ایچ)۔یہ تصور 1972 میں بھوٹان کے چوتھے بادشاہ جگمے سنگے وانگچک نے متعارف کرایا تھا۔ معاشی ترقی کے روایتی پیمانوں کو چھوڑ کر بھوٹان اپنے ملک کی مجموعی فلاح و بہبود کا اندازہ پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کی بنیاد پر کرتا ہے، جس میں ماحولیاتی تحفظ، ثقافت کا تحفظ اور فروغ اور اچھی حکمرانی شامل ہے۔رنپوچے کہتے ہیں کہ ’مجموعی قومی خوشی اجتماعی حالات کا ایک مجموعہ ہے، جو عام طور پر اچھی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔‘وبائی مرض سے پہلے رنپوچے نے اپنے نیکور انیشی ایٹیو کے ذریعے دنیا بھر میں لیکچرز اور ورکشاپس منعقد کی تھیں۔ وہ بھوٹان میں پہلی بدھ اکیڈمی بنانے کے لیے بھی کام کر رہے تھے جو ہر اس شخص کے لیے کھلی رہے گی جو بدھ مت کے فلسفے میں دلچسپی رکھتا ہو گا، قطع نظر اس کی حیثیت اور مذہب کے۔رنپوچے کہتے ہیں کہ ’میں جو کچھ بھی کر رہا تھا وہ رک گیا۔ میں نے اس موقع کو اپنے تجربے کو وسیع کرنے اور اپنے آپ کو الگ تھلگ کرنے کے طور پر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ میں پہاڑوں پر گیا اور سخت موسمی حالات میں ایک غار میں بغیر کسی دوسری پناہ گاہ کے بہت کم خوراک کے ساتھ رہا۔ اس نے مجھے اپنی تعلیمات کو صحیح معنوں میں اپنانے کا وقت دیا۔ جو بہت واضح ہوا وہ یہ تھا کہ سچی خوشی کا بیرونی مظاہر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ فطری ہے۔‘یقینا، رنپوچے اصرار کرتے ہیں کہ کسی کو سکون حاصل کرنے کے لیے ایسی انتہاؤں پر جانے کی ضرورت نہیں ہے: ’ہمیں اپنے آپ سے باہر خوشی کی تلاش بند کر دینی چاہیے۔ میری رائے میں چار ستون ہیں: محبت بھری مہربانی، ہمدردی، عدم وابستگی اور کرما، جنھیں کوئی بھی اپنی زندگی میں کسی بھی موقع پر، کہیں سے بھی، آسانی سے گلے لگا سکتا ہے۔‘رنپوچے کے مطابق، محبت بھری مہربانی ’خوشی پیدا کرنے کی کنجی ہے، نہ صرف ذاتی سطح پر، بلکہ دوسروں کے لیے بھی۔‘ انھوں نے پہلے اپنے آپ پر مہربان ہونے کی اہمیت پر زور دیا کہ یہ کس طرح دوسروں کے لیے ہمدردی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ’آپ کو اپنے آپ سے محبت کرنی چاہیے اور صحیح معنوں میں جان لینا چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں، آپ ان (کا سامنا کرنے) کے لیے کافی ہیں۔ پھر وہاں سے، آپ اس (ہمدردی) کو دوسروں تک پھیلا سکتے ہیں۔‘سابق ٹور گائیڈ چنجور ڈوزی سمجھتے ہیں کہ بھوٹان کی اجتماعی ہمدردی کا احساس ان کے مذہب میں پنہاں ہے۔ ’ہمارے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا ایک مضبوط احساس ہے، جو اس لیے آتا ہے کہ زیادہ تر آبادی بدھ مت ہے۔ میں ہمیشہ یہ بات سوچتا ہوں کہ میں جو کچھ کروں گا اس سے کمیونٹی کو فائدہ ہو گا۔‘کووڈ کی وبا کی وجہ سے ڈوزی مزید کام نہ ڈھونڈ سکے اور مئی 2020 میں اپنے گاؤں تیکیزامپا واپس آ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے سب سے مشکل کام اس نوکری کے کھو جانے کے احساس کے ساتھ سمجھوتا کرنا تھا، جسے میں سمجھتا تھا کہ وہ بہت محفوظ ہے۔ تاہم میرے پاس متبادل موجود تھے۔ میں اپنے گاؤں گیا اور واپس زمین سے جڑ گیا، کھیتی باڑی شروع کی اور فصل بیچنے لگا۔‘اب بھوٹان کے دروازے سیاحوں کے لیے دوبارہ کھلنے کے بعد ڈوزی اپنے دیگر رفقا کو اپنے تجربے کی روشنی میں سیکھا رہے ہیں کہ سیاحوں کے لیے مقامی ثقافت کو کس طرح فروغ دینا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہماری مقامی سرخ چاول پکانے کی تراکیب کو مزید دلکش بنائیں اور انھیں جہاں تک ممکن ہو مستند بنائیں تاکہ لوگوں کو ہمارے مقامی کھانے کا پتہ چل سکے۔‘رنپوچے کا تیسرا ستون، چیزوں کے ساتھ منسلک نہ ہونا یا ان کا غیر مستقل یا عارضی ہونا ہے۔ یہ بدھ مت کا ایک تصور ہے جو بھوٹانی ثقافت کی جڑ ہے۔ رنپوچے کہتے ہیں کہ ’اگر کچھ غلط ہو جائے تو فوراً افسردہ نہ ہوں کیونکہ حالات بدل جائیں گے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ تمام چیزیں عارضی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی آ سکتی ہے اور تبدیلی کے ساتھ امید بھی ہے۔‘رنپوچے نے بتایا کہ یہ زندگی میں مثبت چیزوں کے لیے بھی درست ہے۔ ’یہ قبول کرنا کہ چیزیں مستقل نہیں ہیں، بشمول کامیابی اور دولت کے، تو آپ کو ان چیزوں کی صحیح معنوں میں قدر ہو گی جو آپ کو اپنے ہاتھ میں ہیں۔‘دوسروں کے لیے مہربانی اور ہمدردی کے ساتھ زندگی گزارنے کے علاوہ وبائی مرض نے ڈوزی پر تبدیلی کو تسلیم کرنے کی اہمیت بھی آشکار کی۔ اپنے گاؤں واپس آنے کے بعد انھوں نے بڑھئی کا کام بھی سیکھا ہے اور ایک بڑے کمیونل منصوبے پر کام کرنے کے علاوہ وہ اپنے پڑوسیوں کے گھروں کی مرمت میں بھی مدد کرتے ہیں۔’ہم نے ایک روایتی فارم ہاؤس کی تزئین و آرائش کی، جسے ایک خاندان نے چھوڑ دیا تھا، اور اسے ایک ’فارم سٹے‘ میں تبدیل کیا۔ میں ایک طویل عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ سیاحت کے لیے زیادہ عمیق نقطہ نظر یا قدرتی طریقے کو استعمال کیا جائے تاکہ لوگ بھوٹان کے دیہی علاقوں کی ثقافت اور طرز زندگی کو زیادہ جان سکیں۔ آخر میں، میں نے اپنے پاس موجود چیزوں سے خوش رہنا اور اس کا بہترین استعمال کرنا سیکھ لیا ہے۔‘رنپوچے کے مطابق چوتھا ستون، کرما، ایسا نہیں ہے جیسا بظاہر سمجھا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں ’کرما کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کچھ برا کرتے ہیں، تو آپ کے ساتھ کچھ برا ہو گا، ایک عالمی انتقام یا سزا کی طرح۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ وجہ، حالت اور اس کے اثر کے متعلق ہے۔‘’یہ قبول کرنے کے متعلق کہ آپ کے اعمال اور انتخاب آپ کے ارد گرد کی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ ایک درخت کا بیج لگانے کے مترادف ہے۔ اگر ہم آم کا بیج لگاتے ہیں تو ہمیں آم کا درخت ملے گا۔‘ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ سیب کا بیج بوئیں اور آم کے درخت کی توقع کریں۔‘’کرما پر یقین آپ کے لیے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا ایک موقع ہے، اپنے آپ کو تراشنے کا، جو آپ بننا چاہتے ہیں اس پر واقعی کام کرنے کا اور جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے کرنے کا۔‘اگرچہ رنپوچے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’بھوٹان ناقابل یقین حد تک پرامن ہے اور اس کا شاندار اور قدیم قدرتی ماحول ہے،‘ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں مسائل بھی ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ہر جگہ ہوتے ہیں۔افراط زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، مجموعی طور پر کنزیومر پرائس انڈیکس میں ایک سال میں تقریباً نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خوراک کا عدم تحفظ بھی ایک حقیقت ہے (بھوٹان اپنی تقریباً 50 فیصد خوراک درآمد کرتا ہے) اور ملک میں خوراک کی قیمتوں میں تقریباً 15 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مارچ 2020 سے اگست 2021 تک ملک کی سرحدیں بند ہونا کا سیاحت کی صنعت میں کام کرنے والوں پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے اور کم از کم 50 ہزار افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ڈوزی بھی ان میں سے ایک ہیں۔اس کے باوجود، گڈ گورننس جو کہ جی این ایچ کی بنیادوں میں سے ایک ہے، وبائی امراض کے دوران بھوٹان کی بقا کے لیے اہم رہی ہے۔ کورونا وائرس کے سماجی و معاشی اثرات پر حکومت کے فوری ردعمل کی بین الاقوامی برادری نے بھی تعریف کی ہے، کیونکہ اس نے فوری طور پر ٹیکسوں کی ادائیگی کو موخر کیا اور شہریوں کو مالی امداد جاری کی تھی۔پارلیمان کے اراکین نے بھی اپنی ایک ماہ کی تنخواہ امدادی کاموں کے لیے عطیہ کی۔ حکومت نے اپنے شہریوں کی ویکسینیشن کو ترجیح دی اور فی الوقت اہل آبادی کا 90.2 فیصد مکمل طور پر ویکسینیشن کروا چکا ہے۔سوشل اینٹریپرینیور اور کنسلٹنٹ تھنلے چوڈن کہتی ہیں کہ ’بھوٹانیوں میں خاص یہ ہے کہ ان میں ہمیشہ شکر گزاری، کمیونل بہتری اور قومی شناخت کا متحد احساس رہتا ہے۔‘چوڈن کا خیال ہے کہ بھوٹانی افراد کی خوشیوں کو دوسری ثقافتوں سے مختلف نظر سے دیکھنے کی ایک وجہ ان کی ماضی اور حال میں ہم آہنگی کی صلاحیت ہے۔ ’بھوٹانی ثقافت ہماری روایات اور روحانی اقدار میں مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے، لیکن ہم ایک بہت ترقی پسند اور عملی معاشرہ ہیں۔ عام طور پر، ہماری ثقافت اور مذہب ایک نسخہ کی طرح نہیں ہے، اور نہ ہی سیاہ اور سفید انتخاب، بلکہ وہ روز مرہ کی زندگی میں ایک درمیانی راستے پر گامزن ہے۔‘اگر رنپوچے دنیا کو ایک مشورہ دینا چاہیں تو وہ یہ ہوگا: ’ہمیشہ یاد رکھیں کہ سب سے اہم چیز موجودہ لمحے میں زندگی گزارنا ہے، اور یہ خوشی بیرونی عوامل کی ضمنی پیداوار نہیں ہے، بلکہ اپنے ذہن کو مثبت سوچ کا حامل رکھنے کا نتیجہ ہے۔ خوشی ہر کسی کی دسترس میں ہے۔‘