خلا میں سیکس کی طلب کس حد تک ہوتی ہے؟
برلن،ستمبر۔خلا کی معلومات حاصل کرنا انسانی جبلت میں شامل ہے۔ اس کے باوجود کائنات کے اس حصے میں سیکس کا موضوع اب بھی ممنوعہ خیال کیا جاتا ہے۔جرمن خلا باز ماتھیاس ماؤرر نے چھ ماہ کے اپنے خلائی سفر کے بعد کئی انٹرویو دیے اور ہر سوال کا برمحل اور فوری جواب دیا لیکن جب ان سے خلا میں سیکس کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ رک جاتے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیکس کے موضوع پر گفتگو کا موقع نہیں ملا کیونکہ پروفیشل ماحول میں رہتے ہوئے کام کی بات پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر بہت اہم ہے کہ خلا میں سیکس کی طلب کس حد تک ہو سکتی ہے۔
ناسا کا موقف:امریکی خلائی ادارے ناسا کا اصرار ہے کہ خلا میں سیکس ممکن نہیں اور اس موضوع پر امریکی خلا باز بھی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ابھی تک خلا میں سیکس کے جو تجربات مکمل کیے گئے ہیں، وہ جانوروں کے ہیں اور انسانوں پر یہ تجربہ نہیں کیا گیا۔جرمن خلا باز ماتھیاس ماؤرر کا خیال ہے کہ خلا میں تربیتی عمل زیادہ اہم ہوتا ہے اور جنسی رغبت کی اہمیت محسوس نہیں ہوتی۔ دوسری جانب ناسا کی سینیئر میڈیکل ایڈوائزر سارالین مارک کا کہنا ہے کہ اگر جنسی رغبت کا تعلق انسانی صحت سے ہے تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کس ماحول میں کوئی انسان کس انداز میں موجود ہے۔ناسا سے منسلک ایک سینیئر بائیو ایتھیسٹ پال رْوٹ وولپے کا خیال قدرے مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ طویل دورانیے کی خلائی پروازوں میں جنسی میلان کا پیدا ہونا ممکن ہے۔
سیکس اور ماسٹربیشن:انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ سیکس اور ماسٹربیشن (مشت زنی) کا تعلق براہِ راست خیال کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ حیاتیات کا خیال ہے کہ یہ رویہ خلا میں بھی تبدیل ہونا نہیں چاہیے۔کسی مرد کا ڈسچارج ہونا اصل میں پراسٹیٹ کو بیکٹیریا کے انفیکشن سے بچاتا ہے اور یہ عمل ذہنی دباؤ یا اسٹریس کو بھی ختم کرتا ہے۔ ڈسچارج نہ ہونے کی صورت میں انگزائٹی بھی بڑھ سکتی ہے۔ بائیولوجسٹ کہتے ہیں کہ خلا میں سفر یا قیام کے دوران انسانی دماغ پر دباؤ غیر معمولی بڑھ سکتا ہے اور ڈسچارج ہونا اس کا ایک بہترین حل ہو سکتا ہے۔جنسی فعل کے حوالے سے معلومات ابھی محدود ہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ خلا میں قیام کے دوران کسی مرد اور عورت میں جنسی میلان میں کمی وقوع ہو سکتی ہے۔ جو بھی مخلوط مشن گئے تھے انہوں نے اس مناسبت سے اپنے تجربات یا معلومات عام نہیں کی تھیں۔ جنسی میلان کے کم ہونے کی بڑی وجوہات میں بے وزنی کی کیفیت اور عدم کشش ثقل بھی ہو سکتی ہے۔اس مناسبت سے جرمن خلاباز اْلرچ والٹر کا خیال ہے کہ خلا میں قیام طویل ہونے کی صورت میں کسی مرد کے اندر جنسی میلان کا نظام الاوقات پھر سے ترتیب پانا شروع کر دیتا ہے۔ اس وقت خلائی سائنسدان خلاباز اْلرچ والٹر کے تجربات کے تناظر میں اپنی تحقیق کا عمل آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔
کیا ایسا ہو چکا ہے؟اس مناسبت سے محض اندازے لگائے جا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلا میں جنسی عمل ہو چکا ہے۔ اب تک دو ایسے خلائی مشن روانہ کیے گئے جن کی خلائی ٹیمیں مخلوط تھیں یعنی مرد بھی اور عورتیں بھی سوار تھیں۔سن 1982 میں روس کی خاتون خلا باز سویٹلانا سویتسکایا کو ایک خلائی مشن پر جانے کا موقع ملا۔ وہ دنیا کی دوسری خاتون تھیں جو خلا کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ وہ خلا میں آٹھ دن رہی تھیں۔ انہیں جس خلائی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا، اس میں دو مرد خلا باز پہلے سے خلا میں مقیم تھے۔ اس طرح یہ پہلا مخلوط خلائی مشن تھا۔جرمن خلا باز الرچ والٹر نے اپنی کتاب A hell ride through time and space میں تحریر کیا کہ سویتسکایا کو جس خلائی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا، اس کے ڈاکٹر اولیگ گیورگووچ نے بتایا تھا کہ خلائی ٹیم میں خاتون خلاباز کو شامل کرنے کا بڑا مقصد خلا میں جنسی فعل کی تکمیل تھی۔دوسرا مشن سن 1992 میں ناسا کا تھا جب خلائی شٹل اینڈیور میں ایک جوڑے کو روانہ کیا گیا۔ اس میں خفیہ طور پر شادی کرنے والے خلاباز مارک لی اور ان کی بیوی جین ڈیوس گئے تھے۔ اس طرح اس مشن کو ان دونوں کا غیر سرکاری طور پر ہنی مون مشن بھی قرار دیا جاتا ہے۔
کمرشل خلائی پروازوں کا سلسلہ:برسوں کی تحقیق کے بعد اب تجارتی بنیادوں پر خلائی سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مناسبت سے اسپیس ایکس نامی ادارہ اب تک چار کمرشل خلائی پروازیں کامیابی سے مکمل کر چکا ہے۔ اسپیس ایکس کو امید ہے کہ دس برس بعد مریخ کی جانب پہلا خلاباز روانہ کیا جا سکے گا۔جس انداز میں خلائی سائنس میں ترقی ہو رہی ہے، اس طرح خلا میں جنسی میلان کا معاملہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔ مستقبل میں ایسی پروازوں کی منصوبہ بندی بھی ہو سکے گی جن کا مقصد خلا میں قیام کے دوران جنسی عمل کی تکمیل ہو گی۔