کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ کے بعد ایرانی مرکزی بنک کا گورنر تبدیل

تہران،دسمبر ۔ ایران کی حکومت نے کرنسی کی قدرمیں مسلسل کمی کے بعد کل جمعرات کو مرکزی بنک کا گورنر مقرر کیا ہے۔ یہ تقرری ایک ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی ہے جب ملک میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں اور مغربی ممالک کی پابندیوں کے نتیجے میں مقامی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے رپورٹ کیا کہ 57 سالہ محمد رضا فرزین جو ایک ممتاز بینکر اور سابق نائب وزیر خزانہ ہیں کو علی صالح آبادی کی جگہ نیا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔ صالح آبادی پندرہ ماہ اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد حال ہی میں مستعفی ہوگئے تھے۔ایرانی ریال نے جمعرات کو ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 430,000 پر تجارت کی، جو اس ماہ کے شروع میں 370,000 تھی۔ایران کے جوہری پروگرام پر برسوں کی مغربی پابندیوں کے بعد ستمبر کے وسط میں جب حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو ایرانی ریال ڈالر کے مقابلے میں 315,000 ریال پر ٹریڈ کر رہا تھا۔ملک میں اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک نوجوان کرد خاتون کی ہلاکت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ مظاہرے تیزی سے بڑھتے گئے اور ملاؤں کی 4 دہائیوں سے زیادہ کی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبات میں بدل گئے۔بدامنی پر گہری نظر رکھنے والی ایک تنظیم اور ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق پرتشدد احتجاج میں کم از کم 508 مظاہرین ہلاک اور 18,600 سے زیادہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ ایرانی حکام نے سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد فراہم نہیں کی۔ایرانی کرنسی 2015 کے جوہری معاہدے کے وقت ڈالر کے مقابلے میں 32,000 ریال پر ٹریڈ کر رہی تھی جس نے ایران کے جوہری پروگرام پر سخت پابندیوں کے بدلے تہران پر سے بین الاقوامی پابندیاں ہٹا دی تھیں۔یہ معاہدہ اس وقت ختم ہو گیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یک طرفہ طور پر امریکا کو اس سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگردونوں ملکوں کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

Related Articles