طالبان کا این جی اوز کو اپنی ملازمہ خواتین کے کام پرآنے پرپابندی عاید کرنے کا حکم
کابل،دسمبر۔افغانستان کی وزارت اقتصادیات کے ایک خط کے مطابق طالبان کے زیرانتظام انتظامیہ نے ہفتے کے روز تمام مقامی اور غیرملکی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی ملازمہ خواتین کو کام پرآنے سے روکیں۔وزارت اقتصادیات کے ترجمان عبدالرحمٰن حبیب نے اس خط کی تصدیق کی ہے اورکہا ہے کہ خواتین ملازماؤں کوتاحکم ثاںی کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ کچھ نے انتظامیہ کی جانب سے خواتین کے لیے اسلامی ضابطہ لباس کی تشریح پرعمل نہیں کیا۔اس سے چند روز قبل طالبان کے زیرانتظام انتظامیہ نے یونیورسٹیوں میں خواتین کا داخلہ اور تدریسی عمل بند کرنے کا حکم دیا تھا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی اور انھیں افغانستان کے اندر بھی مظاہروں اور شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ناروے کے ناظم الاموربرائے افغانستان نے طالبان کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔پال کلومن بیککن نے ٹویٹ کیا کہ’’این جی اوز میں خواتین ملازمین پرعاید پابندی کو فوری طور پرختم کیاجائے۔یہ خواتین کے حقوق کے لییایک دھچکا ہے۔اس اقدام سے انسانی بحران میں اضافہ ہوگا اور سب سے زیادہ کمزور افغانوں کو نقصان پہنچے گا‘‘۔فوری طور پر یہ واضح نہیں ہواکہ اس حکم سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں پر کیااثرپڑے گا، جن کی افغانستان میں بڑی تعداد میں موجودگی ہے اور وہ ملک میں جاری انسانی بحران کے دوران میں خدمات مہیّاکرتی ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان قوانین میں اقوام متحدہ کی ایجنسیاں بھی شامل ہیں توحبیب نے کہا کہ اس خط کا اطلاق افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے رابطہ کاری کرنے والیادارے کے تحت آنے والی تنظیموں پر ہوتا ہے،جسے اے سی بی اے آر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ادارے میں اقوام متحدہ شامل نہیں،لیکن اس میں 180 سے زیادہ مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز شامل ہیں۔تاہم، اقوام متحدہ اور اس کے تحت ادارے اکثر افغانستان میں رجسٹرڈ این جی اوز کے ساتھ مل کر انسانی ہمدردی کے کاموں کوانجام دینے کیمعاہدے طے کرتے ہیں۔امدادی کارکنوں کا بھی کہنا ہے کہ خواتین کوامداد تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کارکن اہم ہیں۔واضح رہے کہ طالبان کے اگست 2021ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کی پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکارمعیشت بحران زدہ ہے اور ملک کو پابندیوں اور ترقیاتی امداد میں کٹوتیوں کا سامنا ہے۔بین الاقومی اداروں کی جانب سے مہیا کی جانے والی انسانی امداد نے لاکھوں افغانوں کوجسم وروح کا رشتہ برقراررکھنے میں مدد دی ہے۔ بین الاقوامی امدادی کمیٹی کے مطابق افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی انسانی بنیادوں پرمہیّاجانے والی امداد پر انحصار کرتی ہے۔