کابل دھماکے میں مرنیوالوں کی تعداد 43 ہوگئی، اکثریت لڑکیوں کی ہے
کابل،اکتوبر۔پیر کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی طرف سے پیش کردہ ایک نئے اعداد و شمار کے مطابق کابل میں تعلیمی مرکز میں خودکش بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد کم از کم 43 ہو گئی ہے۔ ایک خودکش بمبار نے کابل کے ایک محلے کے سکول کے کلاس روم کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ اس محلہ میں شیعہ ہزارہ اقلیت کی اکثریت آباد تھی۔یو این مشن ٹوئٹر پر بتایا کہ کہ "43 ہلاک اور 83 زخمی ہوئے ہیں۔ متاثرین میں زیادہ تر لڑکیاں اور نوجوان خواتین ہیں۔۔ مرنیوالوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔دھماکہ اس وقت کیا گیا تھا جب جب درجنوں طلبہ یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات دے رہے تھے۔اب تک کسی گروپ نے جمعہ کے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم داعش تنظیم ماضی میں بھی شیعہ برادری کو نشانہ بناتی رہی اور سکولوں اور مسجدوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔طالبان حکام نے اپنے حالیہ اعدادوشمار میں کہا کہ خودکش دھماکہ میں 25 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوئے ہیں۔حالیہ مہینوں میں افغانستان میں پھر تشدد کے واقعات بڑھے ہیں۔ طالبان حکومت کے لئے ان بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔جمعہ کے روز کے حملہ کے بعد کابل سمیت کئی شہروں میں خواتین نے مظاہرے کئے ہیں۔ محلہ دشت البرشی کی 50 کے قریب خواتین نے سڑکوں پر آکر نعرے لگائے کہ ’’ہزارہ کی نسل کشی بند کرو، شیعہ ہونا جرم نہیں ہے‘‘پچھلے سال مئی میں طالبان کی اقتدار میں واپسی سے پہلے دشت البرشی میں ایک سکول کے قریب تین بم دھماکوں میں 85 افراد، جن میں زیادہ تر لڑکیاں تھیں، ہلاک اور تقریباً 300 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔اس بم دھماکے کی ذمہ داری کسی جماعت نے قبول نہیں کی تھی ، تاہم ایک سال قبل داعش نے اسی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس حملہ میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔