نائن الیون کے بعد گزشتہ بیس برسوں میں سعودی عرب کتنا بدل چکا ہے؟
ریاض،ستمبر۔خلیج کی قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے مقابلے میں آج بہت بدل چکی ہے۔ امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملے کرنے والے انیس ہائی جیکروں میں سے چار کے سوا باقی تمام سعودی شہری تھے۔ٹھیک دو عشرے قبل کیے جانے والے امریکی تاریخ کے سب سے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں کے ماسٹر مائنڈ اور القاعدہ نیٹ ورک کے بانی اسامہ بن لادن کا تعلق بھی سعودی عرب ہی سے تھا۔ لیکن گزشتہ دو عشروں کے دوران سعودی حکمرانوں نے نہ صرف ملکی سرزمین پر القاعدہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اپنے ہاں نصابی کتابوں میں شائع ہونے والے مواد تک پر دوبارہ غور کر کے انہیں نئے سرے سے ترتیب دیا اور ساتھ ہی امریکا کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے نیٹ ورک کو بھی پوری طرح ناکام بنانے کی کوشش کی۔خلیج کی سب سے بڑی طاقت کہلانے والی ریاست سعودی عرب میں یہ پیش رفت امریکا پر گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے تقریباً پانچ برس بعد دیکھنے میں آئی کہ ریاض حکومت نے ان نظریاتی بنیادوں سے کچھ پیچھے ہٹنا شروع کر دیا، جن پر موجودہ سعودی ریاست قائم کی گئی تھی۔یہ نظریاتی بنیاد اسلام کا وہ سخت گیر وہابی نقطہ نظر تھا، جسے سعودی عرب کے اندر اور باہر کئی نسلوں تک پھیلایا گیا تھا اور جس نے اسلام کے نام پر اپنی عسکری جدوجہد کو جہاد‘ کا نام دینے والے مجاہدین‘ کو ان کی سرگرمیوں کے لیے خود ان کی حد تک ایک وضاحتی منظق بھی دے دی تھی۔دنیا کے بہت سے ممالک، خاص کے امریکا میں لاتعداد شہریوں کی رائے میں سعودی عرب کا نام نائن الیون حملوں سے جڑا ہوا تھا اور ہمیشہ جڑا رہے گا۔ اس بات کو تاریخی حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ٹھیک دو عشرے قبل نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاور اور پینٹاگون کی عمارت سمیت کئی اہداف پر مسافر طیاروں کے ساتھ جو دہشت گردانہ حملے کیے گئے تھے، ان میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ ان حملوں کے لیے جو مسافر طیارے اغوا کیے گئے تھے، ان کے 19 ہائی جیکروں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب ہی سے تھا۔اس تناظر میں امریکا میں ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان اور ان کے خاندان آج بھی اس کوشش میں ہیں کہ ان حملوں کے لیے سعودی حکومت کو قصور وار ٹھہرایا جائے اور موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی ان حملوں سے متعلق کئی اب تک خفیہ دستاویزات بھی اب منظر عام پر لے آنا چاہییں۔ان مطالبات کے برعکس سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس پر نائن الیون کے حملوں میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے متعلق کوئی بھی الزام لگانا بنیادی طور پر قطعی غلط‘ ہو گا۔امریکا پر دہشت گردانہ حملے کرنے والے نیٹ ورک القاعدہ نے سعودی عرب کو بھی اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب خلیج کے علاقے میں امریکا کا اہم ترین پارٹنر ملک ہے۔ اس کے علاوہ خلیج کی پہلی جنگ کے بعد اس عرب بادشاہت میں امریکی فوجی بھی تعینات تھے، اور اس تعیناتی نے انتہا پسندوں کو سعودی حکمرانوں سے مزید متنفر کر دیا تھا۔واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کے ترجمان کے مطابق یہ بات نظر انداز نہیں کی جانا چاہیے کہ جن دہشت گردوں نے امریکا پر گیارہ ستمبر 2001ء کے حملے کیے، انہی انتہا پسندوں نے سعودی عوام، مسلح افواج اور حکومت کے علاوہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو بھی کئی بار اپنے خونریز حملوں کا نشانہ بنایا۔سعودی عرب میں گزشتہ کئی برسوں میں آنے والی تبدیلیوں کی رفتار اس وقت تیز ہوئی اور اسلام کا زیادہ اعتدال پسند‘ رخ متعارف کرانے کی کوششیں اس وقت شروع ہوئیں جب موجودہ بادشاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا ولی عہد نامزد کیا۔ محمد بن سلمان نے ولی عہد بننے کے ایک سال کے اندر اندر ملک کی مذہبی پولیس کے اختیارات میں واضح کمی کر دی۔لبنانی دارالحکومت بیروت میں قائم تھنک ٹینک بیروت انسٹیٹیوٹ کی بانی اور سعودی اخبارات میں طویل عرصے سے مسلسل لکھتی رہنے والی خاتون صحافی راغدہ درغام کہتی ہیں کہ سعودی عرب اب ایک نیا ملک ہے، ایک ایسا نیا ملک جو ابھی تشکیل پا رہا ہے۔راغدہ درغام کے مطابق، سعودی عرب گزشتہ دو عشروں کے دوران بہت سی بڑی تبدیلیوں سے گزر چکا ہے۔ وہاں اب ایسی ایسی سماجی تبدیلیاں آ چکی ہیں جو ماضی میں ناقابل تصور تھیں۔ سعودی حکمرانوں نے اس عرصے کے دوران ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا صفایا بھی کیا اور یہ کام آسان تو بالکل نہیں تھا۔‘‘سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اسی سال اپریل میں سرکاری ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں دیا گیا یہ بیان بھی ماضی کے بیانات سے بہت ہی مختلف اور دور رس تبدیلیوں کا مظہر تھا کہ سعودی عرب کی شناخت کی بنیادیں دو ہیں: اسلام اور اس ریاست کی عرب میراث۔