لیسٹر کے بعد برمنگھم میں ایک مندر کے باہر بھی احتجاج

مقامی لوگ بہت پریشان ہیں، یہاں ایسا پہلی بار ہوا ہے

برمنگھم،ستمبر۔برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی اور ہنگامہ آرائی کے بعد اب برمنگھم سے بھی ایسی خبریں سامنے آئی ہیں۔برمنگھم کے سمتھ وِک علاقے میں درگا بھون مندر اور کمیونٹی سینٹر کے باہر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔یہ واقعہ منگل کی شام کو پیش آیا، جب انڈیا کی ہندو رہنما سادھوی رتمبھارا کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے 200 سے زیادہ لوگ درگا بھون مندر کے باہر جمع ہوئے۔مظاہرین نے الزام لگایا کہ سادھوی رتمبھارا مسلم مخالف ہیں اور ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام میں ان کا ہاتھ ہے۔سادھوی رتمبھارا ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈر ہیں۔ وہ 1990 کی دہائی میں سرخیوں میں آئی تھیں۔شیڈول کے مطابق 57 سال کی سادھوی رتمبھارا نے 20 سے 24 ستمبر تک برمنگھم، بولٹن، کووینٹری، ناٹنگھم اور لندن میں ہندو مندروں کا دورہ کرنا تھا۔ ان کے دورے کا اہتمام ’پرم شکتی پیٹھ‘ نام کی تنظیم نے کیا ہے، جو برطانیہ میں رجسٹرڈ تنظیم ہے۔جب مظاہرین کو بتایا گیا کہ سادھوی رتمبھارا کا پروگرام اب منسوخ کر دیا گیا ہے، تب بھی وہ وہاں سے جانے پر راضی نہیں ہوئے۔بتایا گیا ہے کہ سادھوی رتمبھارا اس مندر میں تقریر کرنے والی تھیں لیکن ان کا پروگرام خرابی صحت کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی متعدد ویڈیوز میں پولیس کو مظاہرین سے نمٹتے اور انھیں دور دھکیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اس بارے میں موقع پر موجود سریش راج پورہ نے بی بی سی سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’عام طور پر میں ہر منگل کو مندر جاتا ہوں۔ اس لیے میں تب مندر میں تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ 200 سے 250 لوگ مندر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ زور زور سے چیخ رہے تھے۔ میں نے مندر کے باہر کئی پولیس والوں کو بھی دیکھا جو سڑک کے دونوں طرف مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ’یہ بتانا تھوڑا مشکل ہے کہ مظاہرین کس ملک سے تھے لیکن وہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔سریش راج پورہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کچھ مظاہرین کو مندر کے حکام اور پولیس پر بوتلیں پھینکتے، دھمکیاں دیتے اور بدسلوکی کرتے دیکھا لیکن خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’مقامی لوگ بہت پریشان ہیں کیونکہ یہاں ایسا واقعہ پہلی بار ہوا ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ کہیں ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔‘منگل کی شام احتجاج کے بعد سمتھ وک کی ’ابراہامک فاؤنڈیشن‘ کے چیف امام مولانا ناصر اختر کو ایک آن لائن ویڈیو میں امن کی اپیل کرتے دیکھا گیا۔انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور اس احتجاج میں شریک نہ ہوں۔مولانا ناصر اختر لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ سوشل میڈیا سے ملنے والی معلومات کی تصدیق کریں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ جیسے ہی مندر کو سادھوی رتمبھارا کے متنازعہ پس منظر کے بارے میں معلوم ہوا تو ان کی تقریب کو منسوخ کر دیا گیا۔مولانا ناصر اختر جیسے مذہبی رہنماؤں اور پولیس کی اپیل کے باوجود لوگ احتجاج کے لیے سڑک پر نکل آئے۔سمتھ وک اور سینڈ ویل کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ’فیتھ فْل فرینڈز‘ نامی تنظیم نے درگا بھون مندر کے ہندو ٹرسٹیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔تنظیم کی طرف سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ سمتھ وک کے کچھ لوگوں نے درگا بھون مندر کے باہر احتجاج کیا جبکہ پروگرام کو منسوخ کرنے کا بیان پہلے ہی بھیجا جا چکا تھا۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم تمام مذاہب کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ یہ اختلافات کو حل کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور اس کے لیے ہم کام جاری رکھیں گے، بہت کم لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اختلاف سے نمٹنے کا طریقہ تشدد ہے۔‘علاقے کے مقامی کونسلر احمد بوستان نے بھی ٹوئٹر پر سمتھ وِک واقعے کی مذمت کی۔انھوں نے لکھا کہ ’آج رات سمتھ وِک میں جو ہولناک منظر دیکھا گیا، وہ ہمارے شہر کی نمائندگی نہیں کرتا اور برے عزائم رکھنے والوں کے ساتھ قانون کے ذریعے نمٹا جائے گا۔ یہاں کی مختلف کمیونٹیز اس تعصب کے خلاف ایک ساتھ کھڑی ہیں اور نفرت پھیلانے والوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔‘پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مندر میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے خلاف احتجاج سے آگاہ تھے۔ پولیس کے مطابق مندر اور اطراف کے علاقوں پر نظر رکھی جائے گی۔بی بی سی نے مختلف پلیٹ فارمز پر ایک واٹس ایپ پیغام بھی گردش ہوتے دیکھا ہے۔اس واٹس ایپ پیغام میں اگلے چند دن میں ناٹنگھم، کووینٹری، ایلفرڈ اور جنوب مشرقی لندن میں مختلف مندروں اور ہندو مراکز کے باہر ہونے والے اسی طرح کے مظاہروں کی تفصیلات شامل ہیں۔برطانیہ کے شہر لیسٹر میں سنیچر کو ہندو اور مسلم نوجوانوں کے درمیان لڑائی کے بعد کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔یہ کشیدگی 28 اگست کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کھیلے گئے کرکٹ میچ سے شروع ہوئی تھی۔سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی افواہیں اس تشدد کو بھڑکانے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔اس سلسلے میں اتوار کو یوسف نامی 21 سالہ نوجوان کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔بتایا گیا کہ وہ سوشل میڈیا سے متاثر ہوا اور چاقو لے کر مظاہرے میں شریک ہوا۔ یوسف نے عدالت میں اعتراف کیا کہ اس نے ایسا صرف سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی وجہ سے کیا تھا۔

Related Articles