جوہری معاہدہ اب بھی ممکن ہے۔ ایران کو واضح طور پر واپس آنا ہوگا: میکروں
پیرس،جولائی۔فرانسیسی صدر عمانویل میکروں نے ہفتے کے روز اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے ایک فون کال کے دوران کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر 2015 کے معاہدے کو بحال کرنا اب بھی ممکن ہے، بشرطیکہ یہ جلد از جلد کیا جائے ۔فرانسیسی ایوان صدر نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ میکروں نے ویانا میں کئی مہینوں تک مذاکرات کی معطلی کے بعد پیش رفت نہ ہونے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور صدر رئیسی کے ساتھ اصرار کیا کہ کسی معاہدے تک پہنچنے اور ایران کی طرف سے جوہری معاہدے کی شرائط پر واپسی کو یقینی بنانا ہوگا۔ایک اور سیاق و سباق میں، میکروں نے چار فرانسیسی شہریوں کی رہائی پر زور دیا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایران میں من مانی طور پر حراست میں لیا گیا ہے ۔
برطانوی شک:صدر میکروں کا یہ فون برطانوی انٹیلی جنس چیف کے شبہ کے بعد آیا ہے جس میں انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ آیا ایرانی رہ نما علی خامنہ ای بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں؟۔انٹیلی جنس ادارے MI6‘‘ کے سربراہ رچرڈ مور نے کولوراڈو میں اسپین سیکیورٹی فورم کو بتایا’مجھے نہیں لگتا کہ ایرانی ایسا چاہتے ہیں۔کوئی پیش رفت نہیں‘۔قابل ذکر ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جون کے آخر میں امریکا اور ایران کے درمیان بالواسطہ بات چیت ہوئی تھی، جس میں یورپی یونین نے ثالثی کا کردار دا کیا تھا۔ اس بات چیت کا مقصد اپریل 2021 میں شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کو بحال کرنا تھا اور 2015 کے معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن) پر عمل درآمد کرانا تھا۔واشنگٹن کے مطابق دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں ’کوئی پیش رفت‘ نہیں ہونے دی۔قابل ذکر ہے کہ امریکا نے 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور تہران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔اس کے بعد ایران نے اپنے بہت سے بنیادی وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا، خاص طور پر یورینیم کی افزودگی کی سطح بڑھا دی تھی۔